کی کلب اور ، پاکستانی لیڈر Key Club or pakistani Leader

Fayyaz Bukhari

 کی کلب اور ، پاکستانی لیڈر

 Key Club or pakistani Leader


 


کی کلب کئی ادوار سے گزری ہے۔ پہلے دور میں نمبر ایک لڑکی ساتھ لاتا تھا جو عام طور پر غیر مسلم ہوتی تھی۔ بیشتر کا تعلق گوا سے بتایا جاتا تھا۔ کاروں کی چابیوں کے ذریعے پارٹنر کا انتخاب ہوتا اور ممبر اپنے پارٹنر کو لے کر واپس چلے جاتے ۔ پھر کمروں کا دور آیا۔ بڑے بڑے بنگلے حاصل کئے گئے جس کے ہر کمرے میں پارٹنر پہلے سے موجود ہوتا ۔ کمرے کے نمبروں کی قرعہ اندازی ہوتی اور رات کے پردے میں شیطان کا رقص ہوتا۔ ” عوامی دوڑ میں کمرے میں صرف وزیروں کے لئے رہ گئے باقی لوگ ہال ہی میں مکروہ چہرے لئے شیطان کو شرماتے ۔ زیادہ تر پارٹیوں کا انتظام جن چار بنگلوں میں کیا جاتا رہا یہ بنگلے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی، کلفٹن، شہید ملت روڈ اور مزار قائد اعظم کے پاس واقع تھے۔ کی کلب کی پارٹیوں کو دو درجوں میں تقسیم کیا گیا۔ اول درجے کی پارٹیوں میں صرف وفاقی وزراء ان کے ہمجولی شریک ہوتے جبکہ دوسرے درجے کی پارٹیاں صوبائی وزراء افسران تاجروں اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کے لئے ہوتیں۔ شرکاء کی تعداد بڑھی تو " شکار پھانسنے کے لئے ریڈیو اور ٹی وی کے عملے کے بعض ارکان کی خدمات بھی حاصل کی گئیں کہ وہ 

شوقین فنکاراؤں کو کی کلب کی راہ دکھا دیں۔ چند بڑی بیگمات بھی اس کام میں معاون رہیں


 لمحہ فکر یہ ہے کہ انہیں اب تک ان اڈوں کے بارے میں پتہ کیوں نہیں چل سکا؟ ہمارے سراغ رساں اداروں کی نظر ان اڈوں پر کیوں نہیں پڑی ؟ آخر وہ کون سے عوامل تھے جن کے باعث ان اڈوں سے مبینہ طور پر اغماض برتا گیا ؟ راولپنڈی اسلام آباد میں ایسے کلبوں کا انکشاف بھی ہوا جنہیں ” کی کلب“

 (Key Club)

 کا نام دیا گیا۔ اکثر وزراء ان کلبوں کو رونق بخشنے کے لئے اپنی محبوباؤں کے ساتھ اکثر جاتے اور رات بھر ساغر و مینا کا کھیل کھیلنے کے بعد صبح واپس لوٹتے ۔ ایسے لوگوں میں سابق وزیر ملک مختار احمد اعوان اور ملک مشتاق اعوان پیش پیش تھے۔ ان کلب میں داد عیش دینے کا ایسا طریقہ اختیار کیا جاتا جو اپنے لحاظ سے نہایت ہی منفرد تھا۔


 اس کلب کو بنانے میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے بعض با اثر افراد شامل تھے۔ کلب کے ممبران و یک اینڈ ( اختتام ہفتہ ) پر ایک منتخب کردہ گیسٹ ہاؤس میں اکٹھے ہوتے ہرممبر پرلازم ہوتا کہ وہ اپنی بیوی کوساتھ لے کر آئے اگر کنوارہ ہے تو کسی بھی لڑکی کا ساتھ ہونا ضروری ہوتا ۔ 


ہر بنت حوا کو ایک کمرہ الاٹ کر دیا جاتا اور اس کے شوہر یا ساتھی کو چابی دی جاتی ۔ یہ چابیاں لکڑی کے صندوق میں ڈال کر دی جاتیں اور صندوق کو ہلایا جاتا کہ چابیاں مل جائیں۔ پروگرام کے آغاز میں کلب ممبران اور ان کی ساتھی لڑکیاں گیسٹ ہاؤس کے بڑے ہال میں اکٹھے ہو جاتے اور پھر جام و ساقی لنڈھائے جاتے۔ پینے پلانے کے دور کے بعد نارچ کی محفل ہوتی اور جب یہ پروگرام اپنے عروج پر پہنچا تو عورتوں کو ان کے متعلقہ کمروں میں بھیج دیا جاتا ۔ کلب ممبران صندوق میں سے ہاتھ آئی چابی اٹھا لیتے اور چابی پر درج کمرہ کھول کر اس عورت کے ساتھ شب بسری کرتے ۔ 

 با خبر ذرائع کے مطابق یہ " کی کلب اسلام آباد کے متعدد گیسٹ ہاؤسز میں ہوتے۔ ذرائع نے اس امر کا انکشاف بھی کیا کہ کلب کے ممبران کے اکٹھے ہونے پر بجلی بند کر دی جاتی اور انہیں اجازت ہوتی کہ وہ وہاں پر موجود جس لڑکی کا ہاتھ پکڑ لیں اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے جائیں۔ عوامی حلقوں کے مطابق گیسٹ ہاؤسز میں فحاشی اور بدکاری کا علم 1979 ء کے اوائل میں ہوا جس کے لئے عوام الناس نے پہلے دبے دبے الفاظ میں انتظامیہ کی توجہ اس طرف مبذول کرائی مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔


 یہ سلسلہ زور پکڑتا تھا۔ باخبر ذرائع نے اس امر کی بھی تصدیق کی کہ ضلعی انتظامیہ بشمول سی آئی اے شاف اور مقامی پولیس ایسے عناصر سے ملی ہوئی تھی سرپرستی بھی کرتی تھی عام حالات میں ہوٹلوں پر چھاپے مارے جاتے بد کردار افراد کو گرفتار کیا جاتا اور بڑی دھوم دھام سے اخباری کا نفرنسوں میں اس کی تشہیر کی جاتی مگر گیٹ ہاؤسز پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا گیا ؟ وجہ یہ تھی کہ اگر یہ فحاشی کے اڈے بند ہو جاتے تو ” شرفاء اپنی عادات کو پورا کرنے کے لئے کہاں جاتے؟ اسلام آباد کے گیسٹ ہاؤسز کی اندرونی کہانی: بد قسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک اس ملک میں جتنے بھی حکمران گزرے ہیں ان میں سوائے چند ایک کے ہر ایک نے اس ملک کو باپ دادا کی جا گیر سرکاری خزانے کو مال غنیمت اور ملک و قوم کی مجموعی ترقی کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کہ مغربی ممالک میں ایک عاشق اپنی غیر منکوحہ بیوی کے ساتھ کرتا ۔ ہے۔ مغربی اور مشرقی روایات میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں پر اگر کوئی سربراہ مملکت یا حکومت کا کوئی ذمہ دار فرد غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث پایا جاتا ہے تو اسے اپنی ملازمت کے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے جبکہ ہمارے ہاں جو نہی کسی شخص کو کوئی اہم ذمہ

داری سونپی جاتی ہے تو حکومت کی طرف سے جو سہولتیں اسے دی جاتی ہیں شراب و شباب اور کباب بھی ان سہولتوں کے لازمی جز و تصور ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت کی کئی مثالیں ایسی ہیں کہ وزیروں کی شراب اور عیاشیوں کے بل سرکاری خزانے سے ادا کئے گئے لیکن کسی نے ان کی باز پرس نہ کی۔ ہمارے علم کے مطابق پاکستان میں ابھی تک کوئی ایسی مثال نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ فلاں وزیر نے جنسی یا مالی کرپشن کی وجہ سے وزارت چھوڑ دی ہو بلکہ یہاں پر اگر ایک وزیر کی بدعنوانیوں کا ثبوت ملتا ہے اور عدالت اسے بدعنوان قرار دیتی بھی ہے تو اس کے ہم خیال اسے بے گناہ ثابت کرنے کے لئے اس کی وکالت کی ٹھان لیتے ہیں اور یہ بھی ہمارے ہاں ہی ہوا کہ راولپنڈی کے ایوب پارک میں اگر ایک وزیر کسی سرکاری ملازمہ کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا ہوا پکڑا گیا اور اس کی خبر چھپی تو اس نے اخبار کے ایڈیٹر کو ایک کروڑ روپے ہرجانہ کا نوٹس بھیج دیا جبکہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ ماضی قریب میں جاپان کے سیاسی افق پر سیکس سکینڈل کا شکار ہو کر کئی ممتاز شخصیات نے سیاسی کیرئیر کی قربانی دینا پڑی۔ امریکہ کے صدارتی امیدوار گیری ہارٹ نامی شخص کو اس وجہ سے دستبردار ہونا پڑا کہ اس کے ایک عورت کے ساتھ جنسی تعلقات تھے مگر ایک ہمارے لیڈر ہیں کہ عوام اور وطن کے مستقبل کو تاریک کر کے اپنی راتوں کو رنگین بنائے ہوئے ہیں۔ متذکرہ گیسٹ ہاؤسز اسلام آباد کے انتہائی جدید ترین اور مہنگے سیکٹرز میں قائم تھے جہاں ایک کوٹھی کی قیمت کروڑوں کے حساب میں تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان گیسٹ ہاؤسز کے ہمسائے میں بسنے والے لوگوں نے سی ڈی اے ضلع انتظامیہ اور حکومت کے ارباب اعلیٰ کی خدمات میں کئی بار اپنی شکایات گوش گزار کیں مگر انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ان گیسٹ ہاؤسز کو چلانے میں سیاسی اور ضلعی انتظامیہ میں موجود با اثر شخصیات کا ہاتھ

تھا جو کہ پیسہ کمانے کے علاوہ با اثر شخصیات کے لئے ان گیسٹ ہاؤسز میں شراب شباب رقص و سرور کی محفلیں سجاتے نرم جسموں کو گرمایا جاتا ساغر و مینا حرکت میں آتے، مخلوط مجلسوں کا یہ دور ساری رات چلتا سرکاری افسروں کو خوش کرنے کے لئے اس قسم کی محفلوں میں کئی غیر ملکی دوشیزاؤں کو بھی بڑے اہتمام سے مدعو کیا جاتا جو کہ انتہائی فیشن ایبل علاقوں میں رہتیں اور ان میں سے اکثر کا تعلق کسی نہ کسی طرح جاسوسی کرنے والے اداروں سے ہوتا۔ شباب اور شراب کا دور چلتا بھیگی راتوں میں ساغر و مینا جب اپنی اثر آفرینی دکھاتے تو مخلوط مجلسوں کے شرکاء کے تن لباس کے تکلف سے آزاد ہو جاتے ۔ اس وقت غیر ملکی جاسوس حسیناؤں کو اپنے خفیہ اداروں کو سیکرٹ" خبریں پہنچانے کے لئے بہت کچھ مل جاتا ۔ مگر شراب کے نشے میں مست بننے کے بیٹوں کے دام و کے اسیر منٹوں میں وہ سب کچھ اگل دیتے جس کے لئے غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کو سال ہا سال انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن اس بات کا احساس اس وقت ہوا جب بہت سارا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔ علاوہ ازیں گیسٹ ہاؤسز کے مالکان اس قسم کی محفلیں سجا کر نہ صرف مال کماتے بلکہ وہ ان ن با با اثر عیاش وزیروں اور مشیروں کی اس کمزوری - سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی فریب ہمدردیاں اور خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے جس کو وہ بعد میں غلط مقاصد کے لئے استعمال کرتے

Tags