ہک سرائیکی اکھانڑ ہے
پھرلے گھنسو مانڈویں ڈیسو
تریہھ پینتری *سال پہلے سرائیکی وسیب اچ
۔۔ تریمتاں (عورتیں ) ہک بئے کولوں اٹے دا منگر " کٹورا یا" دیگڑی(دیگچی)" پتروٹا" (مٹی کا تھال) یا جیڑھا تھاں وی ہووے ہا ۔۔
ادھارا گھنن ہا تے واپسی تے" لُجھ " جھیڑا" جھگڑا پئے ویندا ہا
جو میں دا تیکوں منڈ منڈ کے (مطلب ہاتھوں سے ٹھونس ٹھونس کر "دبا دبا "کے" لتاڑ لتاڑ "کے😂 ) مانڈواں تھاں (برتن ) بھر ڈتا ہائی
توں ہنڑ اپنڑی واری تے "پُھرلا
(مطلب ایسے ڈھیلا اور کم وزن نرم ہاتھ سے بھرا ہوا )
تھاں (برتن ) واپس ڈیندی پئی ایں بھر کے پورا کر میڈا اٹا،
نا تے ول منہ چاء کے ناں آویں پئی میڈے کول کئی شئے " گھِننڑ کیتے 😃😃
بس یہیں سے ایک لڑائی شروع ہوجاتی تھی،
جو کافی دن تک چلتی تھی زبانی کلامی اور دوبارہ آٹے کے لین دین پر لڑکیوں کو ہوشیار رہنے کا کہا جاتا تھا ۔۔
اور بار بار پوچھا جاتا تھا کہ ۔۔اٹا پھرلا ڈتا ہاوی یا مانڈوا ۔۔۔😀۔۔😉
اکثر یہ جھگڑا برتنوں کے لین دین پر بھی ہوتا تھا اور ہے
۔۔ان پڑھ عورتیں اپنے برتنوں کے پچھواڑے پر ،ایک مخصوص کوڈ نما نشان لگا دیا کرتی تھیں ،
کسی نے کراس بنا دیا کسی نے بیضوی دائرہ کھینچ دیا چھری سے ،،
تو کسی نے ،کچھ اور بنا دیا ،اور یہی برتن کی ملکیت کا ٹریڈ مارک شمار ہوتا تھا ،😍
کانچ کے برتنوں کا رواج بہت کم تھا پہلے ،اس وجہ سے کانچ پر مخصوص مونو گرام کوڈ کرنے کا مسئلہ ہی نہیں ہوتا تھا ،
جھگڑا اکثر شیطان کی آنت کی طرح پھیلتا تھا کئی گھروں تک ،اور کئی دن ،
جھگڑے میں ایک دوسرے کی حمایت حاصل کرنے کا طریقہ بھی دیہاتی انداز کا تھا ،
یعنی ساگ بھیج دیا کٹورہ بھر ۔
گڑ بھیج دیا نکے کے ہاتھ ۔
مزید جس کی حمایت حاصل کرنا مقصود ہوتا تھا ۔
اس کے جھگڑوں کی سن گن لی جاتی تھی اور اس کے مؤقف کی حمایت کی جاتی تھی ،
موقف غلط یا درست کا ٹنٹا پالا ہی نہیں جاتا تھا ،
یوں گروپ بندی غیر آئینی وجود میں آتی تھی 😁
شیطان کی گ ا ف میں انگلی دینے والی بات شمار کی جاتی تھی کہ کسی گروپ کو حق سچ کہ بات کر دی جائے ،،اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا تھا ہمیشہ 🙃😜
اللہ بچاوے ول انہاں تریمتاں دے جھیڑے کولوں
😆😂🤓
📝فیاض بخاری