19th Century Stories Main Khawateen Ke manfi kirdar :


 انیسویں صدی کے افسانوں میں خواتین کے شریر کردار
 

انیسویں صدی کا ادب، جو اپنے وقت کے  سماجی، ثقافتی اور اخلاقی معیاروں کا آئینہ دار ہے، خواتین کے کرداروں کو بھی اپنے اندر شامل کرتا ہے۔ تاہم، یہ کردار اکثر معاشرے کی طرف سے وضع کردہ حدود کے اندر ہی رہتے تھے 

خواتین کے کردار، جیسے الیگزینڈر ڈوما کی *تھری مسکیٹیرز* میں ملادی ڈی ونٹر، اس قانون کی پابندی کو توڑتے ہوئے ایک نئی نوعیت کے "شریر" کردار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔


ان کرداروں کا مطالعہ نہ صرف انیسویں صدی کے معاشرے کو سمجھنے کا ذریعہ فراہم کرتا ہے، بلکہ یہ ہمیں آج کے دور کے مسائل پر بھی غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔


---

 "بری عورت" کے روایتی تصورات


انیسویں صدی کے ادب میں خواتین کے کردار عام طور پر دو بنیادی زمرے میں تقسیم کیے جاتے ہیں:

1. خواہش پرست خواتین  
   یہ وہ خواتین ہیں جو معاشرے میں بلندی حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کرتی ہیں۔ ان کی کوششوں کا مقصد دولت، طاقت یا اجتماعی درجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ولیم میک پیس تھیکری کے ناول *وینٹی فیئر* کی بیکی شارپ ایک ایسی شخصیت ہے جو مردوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کرتی ہے۔ انتھونی ٹرولوپ کی *دی یوسٹس ڈائمنڈز* میں لیزی یوسٹس بھی اسی زمرے میں شامل ہے۔  

. کٹھور اور غصیلی عورتیں  

   یہ کردار اپنی جابرانہ شخصیت اور مردوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوششوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ٹرولوپ کی *کرانیکلز آف بارسیٹ شائر* سیریز میں بشپ کی بیوی مسز پروڈائی ایک بہترین مثال ہے۔ وہ اپنے شوہر کو ذہنی طور پر پریشان کرتی رہتی ہے اور اپنی جابرانہ طرزِ عمل کی وجہ سے ایک "کٹھور" کے طور پر جانی جاتی ہے۔  

---

 معاشرتی اقدار اور خواتین کا کردار


انیسویں صدی کے معاشرے میں خواتین سے "نرم خو"، "فرمانبردار" اور "گھریلو" ہونے کی توقع کی جاتی تھی۔ کوئی بھی عورت جو مردوں کی بالادستی کو چیلنج کرتی یا اپنی خواہشات کا اظہار کرتی، اسے "بری" سمجھا جاتا تھا۔ ایک عورت کے لیے اچھی شادی کرنا معیارِ کامیابی تھا، لیکن اگر وہ اس مقصد کے لیے کوششیں کرتی نظر آتی تو اسے "مکار" قرار دیا جاتا۔ اسی طرح، گھریلو معاملات میں اپنی رائے مسلط کرنے والی عورت کو "چڑچڑی" یا "جابر" کہا جاتا تھا۔  

---

 ملادی ڈی ونٹر: ایک انوکھا  کردار

ملادی ڈی ونٹر کا کردار ان روایتی زمروں سے بالکل الگ ہے۔ وہ نہ صرف گھریلو دائروں میں مردوں سے ٹکراتی ہے، بلکہ ان کی دنیا—جہاں تلواروں، جاسوسی، اور سیاسی سازشوں کا راج ہے—میں بھی برابر کی مقابلہ باز ہے۔ زہر اس کا پسندیدہ ہتھیار ہے، جو اس دور میں کمزور طبقوں اور خواتین کا "ناانصاف ہتھیار" سمجھا جاتا تھا۔ ڈوما نے ملادی کو ایک یک طرفہ "شیطان" کے طور پر پیش کیا، لیکن جدید قاری اس کے کردار کو سماجی حدود اور صنفی تفریق کے خلاف ایک احتجاج کے طور پر بھی پڑھ سکتا ہے۔  

---

 ادب کو جدید تناظر میں پرکھنا

ڈوما کا ناول *تھری مسکیٹیرز* اپنے دور کی معاشرتی قدروں کا آئینہ دار ہے۔ تاہم، آج کے قاری کے لیے یہ صرف ایک پرجوش مہم جوئی ہی نہیں، بلکہ صنفی تفریق اور "زہریلی مردانگی" کا مطالعہ بھی ہے۔ *تھری مسکیٹیرز* کی مقبولیت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم اسے نئے تناظر میں دیکھیں۔ میری کتاب *ملادی* اسی کوشش کا حصہ ہے، جو اس کردار کی ابتدائی کہانی اور اس کے جذباتی سفر کو اجاگر کرتی ہے۔  

---

 آخر میں...

انیسویں صدی کے ادب کی یہ "شریر" خواتین ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ادب صرف تفریح نہیں، بلکہ معاشرتی تبدیلی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ ملادی جیسے کرداروں کو پڑھتے ہوئے ہمیں نہ صرف ماضی کی سماجی پیچیدگیوں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے، بلکہ موجودہ دور کے مسائل پر بھی غور کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ اس طرح، ان کرداروں کا مطالعہ صرف ادبی تناظر میں ہی نہیں، بلکہ سماجی اور ثقافتی تناظر میں بھی 
ضروری ہے۔  

فیاض بخآری 🙏---