Telepathyٹیلی پیتھی کیا ہے ؟

ٹیلی پیتھی (Telepathy) کیا ہے؟




خیال خوانی (Telepathy) کا مطلب ہے دو افراد کے درمیان بغیر کسی ظاہری وسیلے (جیسے بولنا، لکھنا، یا اشارے کرنا) کے خیالات یا معلومات کا تبادلہ۔ یہ تصور اکثر روحانی یا مافوق الفطرت علوم میں پیش کیا جاتا ہے۔ سادہ معنوں میں اس کا مطلب ہے کسی دوسرے شخص کے خیالات کو پڑھنا یا سمجھنا۔

ٹیلی پیتھی (Telepathy) ، خیال خوانی (Mind Reading)  تعلق انسانی دماغ کی غیر معمولی صلاحیتوں سے ہے، جو عام طور پر سائنس فکشن یا مافوق الفطرت کہانیوں میں بیان کی جاتی ہیں۔

جدید سائنس میں ٹیلی پیتھی:

جدید سائنس میں ٹیلی پیتھی کو "نیورل ڈی کوڈنگ" (Neural Decoding) کے ذریعے ممکن بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ fMRI جیسی ٹیکنالوجیز کے ذریعے، سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا انسان کے دماغی سرگرمیوں کو پڑھ کر اس کے خیالات یا تصورات کو سمجھا جا سکتا ہے یا نہیں۔

جدید سائنس کی نظر میں ٹیلی پیتھی کو ایک ثابت شدہ سو فیصد  حقیقت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ تاہم، تحقیقات میں "دماغ سے دماغ تک رابطہ" (Brain-to-Brain Communication) کے تجربات کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، سائنسدانوں نے الیکٹروڈز اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے دو افراد کے دماغوں کو جوڑ کر سادہ معلومات کے تبادلے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے ۔

اے آئی (AI) اور ٹیلی پیتھی:

مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبے میں، محققین دماغی لہروں کو ڈی کوڈ کرنے اور انہیں الفاظ یا تصاویر میں تبدیل کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایلون مسک کی کمپنی "نیورالنک" (Neuralink) دماغ اور کمپیوٹر کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی تجرباتی مراحل میں ہے، لیکن مستقبل میں یہ خیال خوانی کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے۔

روحانی نقطہ نظر:

روحانی یا مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر سے، ٹیلی پیتھی اور خیال خوانی کو انسانی روح کی غیر معمولی صلاحیتوں کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ مراقبہ، یوگا، یا دیگر روحانی مشقوں کے ذریعے ان صلاحیتوں کو بیدار کیا جا سکتا ہے۔

تاریخی پس منظر:

ٹیلی پیتھی کا تصور قدیم زمانوں سے موجود ہے، لیکن یہ علمی تحقیق کا موضوع 19ویں صدی کے آخر میں بنایا گیا۔ اس دوران ماوراء الطبیعی شعور (Parapsychology) کے مطالعے میں اس کو ایک اہم عنصر سمجھا گیا۔

ٹیلی پیتھی (Telepathy) اور مشرقی ایشائی علوم:

مشرقی ایشیاء، خاص طور پر چین، ہندوستان، تبت، اور جاپان، میں روایتی معنویت، فلسفہ، اور علوم کے تناظر میں ٹیلی پیتھی کو ایک قابلِ اعتبار صلاحیت سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور عام طور پر غیر مادی رابطوں، دماغی توانائی، اور اعلیٰ شعور کے ذریعے ممکن سمجھا جاتا ہے۔ مشرقی ایشائی علوم میں ٹیلی پیتھی کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے، اور اسے روایتی طریقوں کے ذریعے ترقی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

چینی روایات میں ٹیلی پیتھی:

چینی روایتی علوم میں ٹیلی پیتھی کو "چی" (Qi) یعنی حیاتی توانائی کے ذریعے ممکن سمجھا جاتا ہے۔ چینی فلسفے کے مطابق، دماغ، جسم، اور روح کے درمیان توانائی کا انتقال اہم ہے۔

چی گانگ (Qigong):

چی گانگ ایک چینی طریقہ کار ہے جو صحت، توانائی، اور روحانی ترقی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ تنفس، نرم حرکات، اور ذہنی ارتکاز کے ذریعے دماغی توانائی کو تقویت دیتا ہے۔ اس کے ذریعے لوگ دوسرے افراد کے خیالات یا احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہندوستانی روایات میں ٹیلی پیتھی:

ہندوستانی روایتی علوم میں ٹیلی پیتھی کو "ماناسیک سنبندھ" یا "خیالاتی ارتباط" کہا جاتا ہے۔ یہ عمل یوگا، مراقبہ، اور دماغی توانائی کے ذریعے ممکن سمجھا جاتا ہے۔

یوگا اور مراقبہ:

یوگا اور مراقبہ کے ذریعے انسان کا دماغ ایک خاص شعوری حالت (Altered State of Consciousness) میں آتا ہے، جس سے وہ دوسرے افراد کے خیالات کو سمجھنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ یوگیوں کا کہنا ہے کہ اعلیٰ ارتکاز اور روحانی ترقی کے ذریعے یہ عمل حاصل کیا جا سکتا ہے۔

نتیجہ:

ہندوستانی روایات میں ٹیلی پیتھی کو دماغی اور روحانی توانائی کے ارتقاء کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے، جسے یوگا اور مراقبہ کے ذریعے تقویت دیا جاتا ہے۔

چاکراس (Chakras):

ہندوستانی روایات میں دماغ اور جسم کے درمیان توانائی کے مرکزوں کو "چاکراس" کہا جاتا ہے۔ ٹیلی پیتھی کو  چاکراسوں کے ذریعے توانائی کے انتقال کے طور پر بھی سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر "آگیاچاکرا " (Agya Chakra) کو دماغی توانائی اور خیالاتی ارتباط کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

سانکھیا فلسفہ:

سانکھیا فلسفہ ہندوستان کے قدیم فلسفیانہ نظاموں میں سے ایک ہے، جو ہندو دھرم کے شش (فلسفیانہ نظریات) میں شامل ہے۔ اس کا بنیادی مقصد حقیقت کو سمجھنا اور انسانی وجود کے مقصد کو واضح کرنا ہے۔ "سانکھیا" کا لفظی مطلب ہے "گنتی" یا "تفصیل"، جو اس فلسفے کے تجزیاتی طریقہ کار کو ظاہر کرتا ہے۔

سانکھیا فلسفہ کے تحت، ٹیلی پیتھی کو ایک اعلیٰ شعوری حالت کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے، جہاں انسان کا ذہن اور نفس (Mind and Soul) دوسرے افراد کے شعور سے جڑ سکتا ہے۔

یین اور یانگ (Yin and Yang):

یین اور یانگ کے اصول کے تحت، دو افراد کے درمیان توازن اور اتحاد کی حالت میں ٹیلی پیتھی ممکن ہو سکتی ہے۔

تبتی روایات:

تبتی بدھ مت میں ٹیلی پیتھی کو ایک اعلیٰ  صلاحیت سمجھا جاتا ہے۔ تبتی لاماؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ میڈیٹیشن کے ذریعے دوسرے افراد کے خیالات کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

غیر معمولی توانائی (Supernormal Powers):

تبتی روایات میں ٹیلی پیتھی کو "Phowa" یا "Tummo" جیسی توانائی کے طریقوں کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ طریقے دماغی اور روحانی توانائی کو تقویت دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

جاپانی روایات:

جاپانی روایات میں ٹیلی پیتھی کو "Reiki" اور "Zen Meditation" کے ذریعے سمجھا جاتا ہے۔

ریکی (Reiki):

ریکی ایک ایسا طریقہ ہے جو توانائی کے انتقال کے ذریعے شفا اور روحانی رابطوں کو تقویت دیتا ہے۔ اس کے ذریعے دو افراد کے درمیان غیر لفظی ارتباط ممکن ہو سکتا ہے۔

زن میڈیٹیشن (Zen Meditation):

زن کے ذریعے انسان کو ایک خاص شعوری حالت میں لایا جاتا ہے، جس میں وہ دوسرے افراد کے خیالات کو سمجھنے کے قابل ہو سکتا ہے۔

نتیجہ:

مشرقی ایشائی علوم میں ٹیلی پیتھی کو ایک قدرتی صلاحیت نہیں بلکہ ایک تربیت یافتہ مہارت ، صلاحیت ،سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمل میڈیٹیشن، یوگا، اور دیگر روحانی تربیتوں کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقی اور قابلِ حصول صلاحیت سمجھی جاتی ہے۔ یہ عمل دماغی توانائی، روحانی رابطوں، اور اعلیٰ شعور کے ذریعے ممکن سمجھا جاتا ہے۔ یوگا، میڈیٹیشن، ریکی، اور دیگر روایتی طریقوں کے ذریعے اسے تقویت دیا جاتا ہے۔

ٹیلی پیتھی (Telepathy) اور اسلامی تصوف:

اسلامی تصوف میں، خیال خوانی یا ٹیلی پیتھی کو عام طور پر "خیال پردازی"، "دل کی بات سننا"، یا "روحانی کشف" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تصوف کے تناظر میں، یہ عمل ایک روحانی صلاحیت یا عطا کے طور پر سمجھا جاتا ہے، جو خدا کی رحمت اور فیض کے ساتھ ایک کامل مرشد کی تعلیم و تربیت سے حاصل ہوتی ہے۔

قرآن و حدیث کے تناظر میں:

اسلام میں کسی بھی معنوی یا غیر معمولی صلاحیت کو خدا کی طاقت کا ظہور سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں براہ راست "ٹیلی پیتھی" کا ذکر نہیں ہے، لیکن بعض آیات اور احادیث غیر معمولی صلاحیتوں کے وجود کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

قرآنی آیات:

قرآن مجید میں ٹیلی پیتھی (Telepathy) یا خیال خوانی کا براہ راست ذکر نہیں آتا، لیکن کچھ آیات ایسی ہیں جو غیر معمولی صلاحیتوں، علم الغیب، یا خدا کی طاقت کے ذریعے حاصل کردہ خصوصیات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ آیات  تفاسیر میں ٹیلی پیتھی یا خیال خوانی سے متعلق سمجھی جاتی ہیں۔

سورۃ النمل، آیت نمبر 19:

ترجمہ:
تو وہ (یعنی سلیمان علیہ السلام) اس (چیونٹی) کی بات سے ہنسی کے ساتھ مسکرائے اور عرض کیا: اے پروردگار! مجھے اپنی توفیق سے اس بات پر قائم رکھ کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدیں پر انعام فرمائی ہے اور میں ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن سے تو راضی ہوتا ہے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے خاص قرب والے نیکوکار بندوں میں داخل فرما لے۔


اس آیت میں ایک چیونٹی سے مکالمہ ہوا تھا حضرت سلیمان علیہ السلام کا ۔

ظاہر ہے یہ ذہنی رابطہ تھا ۔جسے ٹیلی پیتھی یا ،تصوف کی رو سے کشف کہ سکتے ہیں 

سورۃ النمل، آیت نمبر 22:

ترجمہ:
پس وہ تھوڑی ہی دیر (باہر) ٹھہرا تھا کہ اس نے (حاضر ہو کر) عرض کیا: مجھے ایک ایسی بات معلوم ہوئی ہے جس پر (شاید) آپ مطلع نہ تھے اور میں آپ کے پاس (ملکِ) سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں۔

وہ سے مراد ،،ہد ہد ،،ایک پرندہ ہے 

احادیث:

بعض احادیث میں پیغمبر حضرت سیدنا  محمد ﷺ کے دور میں صحابہ کرام اور دیگر لوگوں کی غیر معمولی صلاحیتوں کا ذکر آتا ہے۔ مثال کے طور پر، حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کی داستان مشہور ہے جب انہوں نے جنگ کے میدان میں حضرت ساریہ (رضی اللہ عنہ) کی باتیں سنیں بغیر کسی واضح واسطے کے۔

 یہ واقعہ تصوف میں "ٹیلی پیتھی" کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

تصوف میں خیال خوانی کا نظریہ:

تصوف میں خیال خوانی یا ٹیلی پیتھی کو ایک روحانی صلاحیت سمجھا جاتا ہے، جو انسان کے دل (قلب) اور روح کی ترقی کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ تصوف کے مطابق، انسان کا دل ایک عظیم طاقت کا ذریعہ ہے، جو خدا کے فیض کے ذریعے دوسرے افراد کے خیالات یا احساسات کو سمجھنے کے قابل ہو سکتا ہے۔

دل کی قوت:

تصوف میں دل کو انسان کا روحانی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ جب انسان کا دل پاک ہو جاتا ہے اور وہ خدا کی عبادت میں مستغرق ہو جاتا ہے، تو اس کی دل کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ اس قوت کے ذریعے وہ دوسرے افراد کے خیالات یا احساسات کو سمجھنے کے قابل ہو سکتا ہے۔

فیض و کشف:

تصوف میں "فیض" (Divine Grace) اور "کشف" (Spiritual Insight) کے ذریعے غیر معمولی صلاحیتوں کا حصول ممکن ہے۔ خیال خوانی کو ایک ایسا کشف سمجھا جاتا ہے، جو خدا کی رحمت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

مراقب(madtition):

تصوف میں مراقبہ (Muraqaba) ایک اہم روحانی تربیت ہے، جس کے ذریعے انسان خدا کے فیض کو مرشد کامل کی تربیت و تعلیم سے جذب کرتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے صوفی سالک ،مرید   اپنے دل کی قوت کو تقویت دیتا ہے ، جس کے نتیجے میں وہ دوسرے افراد کے خیالات کو سمجھنے کے قابل ہو سکتا ہے۔

علم الغیب اور خیال خوانی:

اسلام میں علم الغیب صرف خدا کے لیے مخصوص ہے۔ کسی انسان کو علم الغیب حاصل نہیں ہوتا، لیکن خدا کی رحمت اور فیض کے ذریعے کچھ غیر معمولی صلاحیتیں ممکن ہیں۔ تصوف میں خیال خوانی کو علم الغیب کا حصہ نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اسے ایک روحانی صلاحیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

نتیجہ:

اسلامی تصوف میں خیال خوانی یا ٹیلی پیتھی کو ایک روحانی صلاحیت سمجھا جاتا ہے، جو خدا کی رحمت اور فیض کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ یہ عمل دل کی قوت، مراقبہ، اور کامل مرشد کی روحانی تربیت کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ اگر خیال خوانی کو خدا کی رضا کے لیے اور دوسرے افراد کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے، تو یہ ایک قابلِ قدر روحانی صلاحیت ہے۔

یورپ میں جدید تحقیقات:

. ماوراء الطبیعی شعور کی تحقیقات:

یورپ میں، خاص طور پر برطانیہ، فرانس، اور جرمنی میں، ماوراء الطبیعی شعور (Parapsychology) کے مطالعے کے تحت ٹیلی پیتھی پر متعدد تحقیقات کی گئیں۔ یہ تحقیقات عام طور پر نیورو سائنس، نفسیات، اور طبیعیات کے تناظر میں کی گئیں۔

برطانیہ:
برطانیہ میں، کوئلینگ ہاؤس (Koestler Parapsychology Unit) جو ایڈنبرا یونیورسٹی میں واقع ہے، ایک معروف ادارہ ہے جو ٹیلی پیتھی سمیت ماوراء الطبیعی صلاحیتوں کی تحقیقات کرتا ہے۔ ان کے محققین نے عصبی شبکوں (neural networks) اور دماغی ارتباطات کے ذریعے ٹیلی پیتھی کے امکانات کا جائزہ لیا ہے۔

جرمنی:
جرمنی میں، ماوراء الطبیعی شعور کے مطالعے کے تحت ٹیلی پیتھی کو سائنسی طریقہ کار سے جانچا گیا ہے۔ محققین نے دو افراد کے درمیان  خیالی رابطوں کی پیمائش کے لیے 

EEG (Electroencephalography)

 اور 

fMRI (functional Magnetic Resonance Imaging) 

جیسے ٹولز کا استعمال کیا ہے۔

. نیورو سائنسی تحقیقات:

جدید نیورو سائنس نے ٹیلی پیتھی کے عمل کو سمجھنے کے لیے دماغی فعالیت کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔ کچھ تحقیقات میں یہ بتایا گیا ہے کہ دو افراد کے دماغ میں ایک جیسی الیکٹریکل اور کیمیائی فعالیت کا وجود ممکن ہے، جو ان کے درمیان غیر لفظی ارتباط کی وجہ ہو سکتا ہے۔

Brain-to-Brain Communication:
یورپی محققین نے "برین-ٹو-برین کمیونیکیشن"

 (Brain-to-Brain Communication)

 کے تجربات کیے ہیں۔ ایک تجربے میں، دو افراد کے دماغوں کو کمپیوٹر کے ذریعے جوڑا گیا، جس سے ایک شخص کے دماغ سے خیالات دوسرے شخص کے دماغ تک بھیجے گئے۔ اس سے ٹیلی پیتھی کے علمی بنیاد کو تقویت ملی ہے۔

Quantum Entanglement 

اور ٹیلی پیتھی:

کچھ یورپی محققین نے کوانٹم میکانکس کے اصولوں کو ٹیلی پیتھی کے توضیح کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

کوانٹم اینٹینگلمینٹ (Quantum Entanglement):
 کے تحت، دو ذرات کے درمیان ایک قسم کا غیر معمولی اتصال وجود میں آتا ہے، جو فاصلے کے باوجود بھی باہمی اثرات پیدا کرتا ہے۔ اس نظریے کو ٹیلی پیتھی کے علمی بنیاد کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

نتیجہ:

یورپ میں جدید تحقیقات نے ٹیلی پیتھی کو نیورو سائنس، کوانٹم میکانکس، اور سائکولوجی کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔


 ٹیلی پیتھی پر مزید  جدید و قدیم تحقیقات اور پیش رفت  جو ہوئی ہیں ۔ان کو بھی میں وقت نکال کر  پیش کرنے   کی کوشش کروں گا ۔۔انشاءاللہ  تاکہ کوئی تشنگی نا رہے ۔۔کوئی دوست چاہے تو کمنٹ باکس میں اس پر اپنی قیمتی رائے دے سکتا ہے یا کچھ بھی سوال جواب کر سکتا ہے میں حتی المقدور اپنی کم علمی کے باوجود جواب دینے کی کوشش کروں گا 

🙏فیاض حسین بخآری