انجمن کے فلم سٹار بننے کی کہانی
![]() |
سلطان راہی مرحوم اور میڈم انجمن پاکستانی فلم انڈسٹری کے سپر سٹار تھے کبھی |
یہ 1978ء کی بات ہے کہ ایک دن ہمیں شباب کیرانوی صاحب نے بتایا کہ ایک نئی لڑکی اداکارہ بننے کیلئے ملتان سے آئی ہے
اور علی زیب )محمد علی ۔زیبا)کے گھر پر چھاؤنی ڈالے پڑی ہے
وہ کیوں ؟“
ہم نے پوچھا۔
کہنے لگے ”بس اسے اداکارہ بنے کا شوق ہے۔
علی بھائی اور زیبا کا آج کل ہر طرف چر چاہے اور اس کا خیال ہے کہ وہی اسے فلموں میں کام دلا سکتے ہیں۔ اس وقت تک خود شباب صاحب نے بھی انجمن کو نہیں دیکھا تھا۔ اس کا اصلی نام انجم تھا۔
کم از کم اس نے سب کو یہی
بتا یا تھا۔
انجم بھی خوب صورت نام ہے لیکن شباب صاحب کو اتنازیادہ پسند نہیں آیا۔ جب انہوں نے انجم کو اپنی فلم میں ہیروئن بنانے کا فیصلہ کیا توا نجم کا فلمی نام انجمن رکھ دیا گیا۔
انجم سے انجمن بننے کا سفر زیادہ طویل تو نہیں تھا لیکن صبر آزما ضرور تھا۔
انجم کا تعلق ملتان کے بازار حسن سے تھا۔ کشیده قامت، متناسب جسم، چہرے کے دلکش نقوش،
بھرے بھرے ہونٹ اور سب سے بڑھ کر نشیلی آنکھیں اس کا سب سے بڑا سرمایہ تھیں۔
انجمن ایک دراز قد ، دبلی پتلی لڑکی تھی۔ اتنی دہلی کہ طویل القامتی کے باعث وہ کچھ عجیب بے ڈول سی لگتی تھی۔
اس کی رنگت کھلتی ہوئی گندمی تھی جسے بعد میں صحافیوں نے چمپئی قرار دے دیا تھا۔
یہ تو نہیں کہ وہ بنی بنائی ہیروئن تھی مگر اس میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو ایک ہیروئن میں ہونی ضروری ہیں۔
اس کی آواز میں ایک خاص کیفیت تھی جیسے کسی کو ہلکا ساز کام ہو جائے لیکن یہ ایک پر کشش اور دلوں میں ہیجان پیدا کرنے والی آواز تھی۔
بعد میں جب انجمن سپر اسٹار بنی تو اس کا سراپا اور دلکش چہرے کے علاوہ اس کی آواز نے بھی فلم بینوں پر بہت غضب ڈھایا۔
ہم نے لکھا کہ انجم نے علی زیب کے گھر چھاؤنی ڈالی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان کے گھر میں رہتی تھی۔ رہنے کیلئے اس نے لاہور کے شاہی بازار میں ایک مناسب جگہ حاصل کرلی تھی۔
اور اپنا دفتر قائم کر لیا تھا۔ اس کے گھر والوں کو ان کاموں کا بخوبی علم تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ملتان سے لاہور پہنچ کر اسے کوئی مالی مشکل پیش نہیں آئی۔
اس کے دل میں ہیروئن بنے کی خواہش جاگزیں تھیں۔ اس کے پرستاروں اور دوستوں، سہیلیوں نے اس کے دل میں یہ بات بٹھادی تھی کہ وہ بہت کامیاب ہیروئن بن سکتی ہے۔
چنانچہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے اس نے محمد علی اور زیبا کی امداد حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ محمد علی اور زیبا اس زمانے میں مقبول ترین فلمی جوڑی تھے۔
فلم سازوں اور فلمی حلقوں میں ان کا بہت اثر ورسوخ تھا۔ ان کی بات ٹالنا کسی فلم ساز کیلئے آسان نہ تھا۔
جب انجم نے اپنے مقصد کے حصول کیلئے علی زیب کا انتخاب کیا تو اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنی سمجھ دار اور ذہین لڑکی تھی اور شطر نج کی بازی جمانے کے ہنر سے آگاہ بھی تھی۔
ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انجم نے ہیروئن بنے کیلئے منصوبہ بندی کی اور آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔
جب وہ لاہور پہنچی اور اداکارہ بنے کا ارادہ ظاہر کیا تو فلمی چیلوں اور کوؤں نے اس کا گھیراؤ کر لیا۔ مشیر بھی دستیاب ہو گئے۔ فلمی پر چوں کے فوٹو گرافروں نے اس کی تصویریں بھی بنانی شروع کر دیں۔
انجم جب انجمن بنی تو اس نے لباس کے معاملے میں کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ بند گلے اور عموماً پوری آستینوں کے کرتے میں نظر آئی۔
مگر انجم نے جب ہیروئن بنے کیلئے ہاتھ پیر مارنے شروع کئے تھے تو فوٹو گرافروں کے اصرار اور اپنی ناتجربہ کاری کے باعث اس نے ایسی تصویریں بھی بنوائیں جو اگر بعد میں شائع ہو جاتیں تو پہلچل مچادیتیں۔ مگر فلمی دنیا میں عموماً ایسا ہی ہوتا ہے۔
بالی ووڈ ہو، بمبئی ہو ، یالا ہور ۔ جب بھی کوئی لڑکی ہیروئن بننے کی تمنا لے کر آتی ہے تو اسے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور عام طور پر ایسی تصویریں بھی بنوانی پڑتی ہیں جنہیں دیکھ کر بعد میں وہ خود بھی شرما جاتی ہیں۔
ہالی ووڈ کی ساحرہ مارلین مونرو نے تو ایک ایسے ہی پوسٹر کی تصویر کے عوض اداکاری کا رتبہ حاصل کر لیا تھا۔ حالانکہ اس کا معاوضہ اسے محض پچاس ڈالر ملا تھا۔
آج کی کروڑ پتی گلو کارہ، اداکارہ میڈونا نے بھی اس معاملے میں کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
بہر حال انجم کی ناتجربہ کاری اور فوٹو گرافروں کی ہوشیاری کے باعث انجم نے خاصی بے باک قسم کی تصویریں بھی بنوائیں مگر غنیمت ہے کہ وہ شائع نہ ہو سکیں۔
شاید اس لئے کہ اس زمانے میں سنسر کی سختیاں بھی تھیں اور اخبار والے کسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔
مگر انجم کو کسی تصویر نے نہیں، علی زیب کی سفارش نے شباب کیرانوی تک اور پھر فلمی صنعت کی دہلیز تک پہنچایا تھا۔
محمد علی اور زیبا کے کہنے پر انہوں نے انجم کو اپنے دفتر میں بلایا اور مختصر سے انٹرویو کے بعد یہ رائے قائم کی کہ انجم میں ہیروئن بننے کے جراثیم موجود ہیں۔
شباب صاحب کو پاکستان کی فلمی دنیا میں بے شمار نئے چہرے متعارف کرانے کا شرف حاصل رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ سال میں تین چار فلمیں بناتے تھے
اور انہیں ہر وقت اداکاروں کی کمی کی شکایت رہتی تھی۔ نئے اداکار وقت بھی زیادہ دیتے تھے اور معاوضہ بھی کم لیتے تھے۔ اور جب اسٹار بن جاتے تھے تب بھی شباب صاحب کے مرہون منت رہنے کی وجہ سے ان سے بہت زیادہ تعاون کرتے تھے۔
شباب صاحب کو انجم کچھ زیادہ ہی بھا گئی۔ انہوں نے چند دن اسے مکالموں کی ادائیگی اور اداکاری کی تربیت دی اور پھر اسے فوراً ایک فلم میں ہیروئن کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
انجم کا نام تبدیل کر کے انجمن رکھ دیا گیا۔ .jpeg)
انجمن
.jpeg)
شباب صاحب کے پاس فلمی کہانیوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ ایک کہانی ” وعدے کی زنجیر “ ان کے پاس تیار تھی۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ انجمن کو پاکستان کے دوسب سے بڑے ہیروز کے ساتھ ہیروئن پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
”وعدے کی زنجیر “ ایک رومانی کہانی تھی۔ انجمن کے ساتھ اس فلم میں وحید مراد اور محمد علی جیسے دو سپر اسٹار بیک وقت پیش کئے جارہے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ایک فلم میں ایک سے زیادہ ہیرو رکھنے کا طریقہ رائج نہیں ہوا تھا۔
اس لئے ایک نئی ہیروئن کیلئے یہ بہت بڑا اعزاز ہی تھا کہ وہ دو سپر اسٹارز کے مقابلے میں پیش کی جائے۔
سبھی کو انجمن پر رشک آیا۔ دوسری ہیروئنوں نے حسد بھی کیا ہو گا۔
ایک ہیروئن نے ہم سے کہا آفاقی صاحب شباب صاحب بھی کمال کرتے ہیں۔
وحید مراد اور محمد علی کے مقابلے میں ایک بالکل نئی لڑکی کو ہیروئن بناد یا
اللہ خیر کرے“۔
مگر شباب کیرانوی حسب عادت پر اعتماد تھے۔ شباب صاحب کی عادت تھی کہ وہ جب بھی کام کرتے بڑے خلوص اور اعتماد کے ساتھ کرتے تھے۔
لوگوں کے اعتراض کے جواب میں انہوں نے کہا آفاقی نوٹ کرلو۔ یہ لڑکی بہت بڑی ہیروئن بنے گی اور سب دیکھتے رہ جائیں گے۔ “ ہم نے شباب صاحب کے دوسرے اقوال کی طرح یہ قول بھی نوٹ کرلیا۔
انجمن کو ہم نے پہلی بار شباب اسٹوڈیوز میں وعدے کی زنجیر“ کی شوٹنگ کے سلسلے میں دیکھا تھا۔ وہ گھا گھر اچولی پہنے ہوئے تھی۔ بال اس زمانے کے دستور کے مطابق بنائے تھے۔
وحید مراد کے ساتھ آؤٹ ڈور میں ایک سین فلمایا جارہا تھا۔ وحید مراد بہت اعلیٰ درجے کے ایکٹر تھے۔ بڑی بے تکلفی اور بے ساختگی سے اداکاری کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں کام کرنا کچھ آسان نہ تھا۔
مگر انجمن بڑے اعتماد کے ساتھ مکالمے بول رہی تھی۔ وہ ذرا بھی ہراساں یا پریشان نظر نہیں آرہی تھی۔
یہ اور بات ہے کہ اس کے چہرے پر تاثرات کی کمی تھی۔ ایک دوست نے شباب صاحب سے کہا ” شباب صاحب اس لڑکی کے چہرے پر ایکسپریشن تو ڈالیں“۔
وہ بولے ” میں نے پروڈکشن مینجر کو بازار بھیجا ہے“۔ ہم نے پوچھا کس لئے ؟“ کہنے لگے ”ایکسپریشن کا ڈبا لانے کیلئے“۔
پھر انہوں نے اپنے دوست سے کہا ” بھائی اس لڑکی کا یہ پہلا سین ہے۔ اتنے بڑے یونٹ کے ساتھ اتنے بڑے ہیرو کے مقابلے میں کام کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ابھی صبیحہ یا شمیم آرا کی طرح اداکاری نہیں کر سکتی۔ ہر چیز میں کچھ وقت لگتا ہے“۔
انجمن کے کامیاب ہیروئن بننے میں کچھ زیادہ ہی وقت لگ گیا۔ وعدے کی زنجیر“ دو بڑے اداکاروں کی موجودگی کے باوجود کامیاب نہ ہو سکی۔ ایک نئی ہیروئن کیلئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔
عام طور پر اداکاروں کی قسمت کا فیصلہ ان کی پہلی فلم کی کامیابی یا ناکامی ہی کرتی ہے۔ مگر بعض اوقات اس اصول میں تھوڑی تبدیلی بھی دیکھنے میں آتی ہے اور کئی فنکار ابتدائی ناکامیوں کے باوجود آخر کار کامیابی کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ معدودے چند ہی ہوتے ہیں۔
انجمن کو بھی اس فہرست میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ وعدے کی زنجیر ایک میوزیکل رومانی فلم تھی مگر انجمن فلم میں اپنے کردار کا بوجھ نہ اٹھا سکی۔ اچھی موسیقی اور دو سپر اسٹار کی بیساکھیاں بھی اسے کھڑا کرنے میں ناکام رہیں۔ دیکھنے والوں کو وہ بہت زیادہ پسند بھی نہیں آئیں۔ مگر یہ غنیمت ہے کہ انہوں نے اسے ناپسند نہیں کیا تھا۔
شباب صاحب کو اپنے انتخاب پر بہت مان تھا۔ انہوں نے وعدے کی زنجیر“ کے بعد انجمن کو دوسری فلم میں پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس بار انجمن کے ساتھ انہوں نے ایک اور سپر اسٹار ندیم کو پیش کرنے کا منصوبہ بنایا۔
اس فلم کا نام دو راستے“ تھا۔
اس فلم کی کاسٹ بھی معمولی نہ تھی۔ ندیم کے ساتھ ایک اور ہیرو شاہد بھی اس فلم میں موجود تھا۔ یہی نہیں ایک اور کامیاب ہیروئن ممتاز بھی اس میں جلوہ گر تھیں۔ یہ دو جوڑوں کی کہانی تھی۔ اس کی بنیاد بھی رومان اور موسیقی پر رکھی گئی تھی۔
وعدے کی زنجیر“ فروری ۱۹۸۹ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
اپنے دستور کے مطابق شباب صاحب نے برقی رفتاری سے اپنی دوسری فلم مکمل کی اور مئی ۱۹۸۰ء میں اسے نمائش کیلئے پیش کر دیا۔ مگر قسمت کے آگے ایک پیش نہ چلی ”دو راستے“ بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔
کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار کر بیٹھ جاتا۔ مگر ان صاحب کا نام شباب کیرانوی تھا۔ شباب صاحب اپنے حسن انتخاب کی یہ بے قدری برداشت نہیں کر سکے۔
انجمن انہیں پسند تھی۔ انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ اس کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کی تھی۔ اس کی ناکامی انہیں گوارا نہیں تھی۔ اس کی دوسری فلم کے بعد بھی انہوں نے اپنی امیدیں قائم رکھیں۔
انجمن انہیں بنی بنائی ہیروئن نظر آتی تھی۔ پھر وہ کامیاب کیوں نہیں ہوئی؟ یہ جاننے کیلئے انہوں نے تیسری فلم بھی بنا ڈالی۔
یہ ایک کامیڈی تھی۔ اس زمانے میں کا میدی فلموں کا دور نئے سرے سے شروع ہورہا تھا۔ اس سے فائد ہ اٹھا کر شباب صاحب نے بھی ایک ہلکی پھلکی فلم بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ سے کیا پردہ ایک دلچسپ فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم میں ایک بار پھر محمد علی کو انجمن کے ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔
کامیاب مزاحیہ اداکار علی اعجاز، صاعقہ اور ڈانسر عشرت چودھری بھی اس فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔ ”آپ سے کیا پردہ “ اس سال میں ریلیز کر دی گئی مگر یہ فلم بھی سپر ہٹ نہ ہو سکی۔
انجمن کو فلم بینوں نے پسند کیا اور نہ ناپسند۔ جو ہیروئن اپنی ابتدائی تین فلموں میں کامیابی حاصل نہ کر سکے اس کا فلمی صنعت میں بھلا کیا مستقبل ہو سکتا ہے؟
مگر یہ انجمن تھی جس کے مقدر میں کاتب تقدیر نے بہت بڑی کامیابیاں اور کامرانیاں لکھ دی تھیں۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ تقدیر کا لکھا پورا نہ ہوتا۔
کم از کم شباب صاحب انجمن کے بارے میں مایوس ہو گئے تھے یہی وجہ ہے کہ اوپر تلے تین فلموں میں موقع دینے کے بعد انہوں نے انجمن کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔
مگر یہ بات خود ان کی سمجھ میں بھی نہیں آئی تھی کہ آخر پبلک نے انجمن کو ہیروئن کے طور قبول کیوں نہیں کیا ؟ حالانکہ وہ بنی بنائی ہیروئن تھی؟
انجمن کیلئے حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ فلم بینوں نے اسے مسترد نہیں کیا تھا۔
اگر فلم ہٹ ہو جائے تو اس کے ساتھ ہر چیز ہٹ ہو جاتی ہے۔ انجمن کی فلمیں ہٹ نہ ہو سکی تھیں مگر انجمن فلاپ بھی نہیں ہوئی تھی۔
دیکھنے والوں کو اس کا دلنواز سراپا اور پرکشش چہرہ اچھا لگا تھا۔ تو پھر کمی کس بات کی تھی ؟
اس بار انجمن کو ایک اور بڑے اور تجربہ کار ہدایت کار نے آزمانے کا فیصلہ کیا۔ یہ پرویز ملک تھے۔ پرویز ملک بہت سی کامیاب فلمیں بنا چکے تھے۔ ذہین ہدایتکاروں میں ان کا شمار ہوتا تھا ،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
فلم سٹار انجمن کے فلم سٹار بننے کی کہانی
علی سفیان آفاقی مرحوم