حالیہ کلر کہار بس حادثہ ،
شالیمار کمپنی کی بس کے ساتھ ہوا ہے
یہ لوکل میڈ کمپنی عرصہ دراز سے چل رہی ہے ۔۔
Nissan ,,Isuzu ,,bedford۔
وغیرہ ، 72 سیٹر پرانے ماڈل کی گاڑیاں ہیں ان کی ،،جن کی پروڈکشن کمپنیوں نے عرصہ دراز سے ختم کر دی ہے حتی کہ ان کا سپیئر پارٹس بنانا بھی بند کر دیا ہے ،،جو ملتا ہے وہ لوکل میڈ ہے جگاڑ سے بنایا گیا
اور کبھی وقت تھا ۔۔جب ۔۔نیو خان ۔۔نیو حبیب خان ۔۔نیازی ٹائم ،،وغیرہ اسی ماڈل کی بسوں کے مالک تھے اور اب بھی ہیں پرانے وقت کا باڈی ڈیزائن اوپن کھڑکیاں ،،مخصوص شیپ لوکل باڈی میکر کی بنائی ہوئی
۔۔ایسی گاڑیوں کو لوکل مکینک مستری رواں رکھتے ہیں ،جگاڑ سے ان کا اکثر مینٹیننس سامان اب نایاب ہے ،،لوکل میڈ سامان دستیاب ہے البتہ ،اس فیلڈ سے وابستہ مکینک ۔۔مستری ،باڈی میکر ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے لوگ ہیں جنہوں نے اس طرح کی بسوں کے لئے ایک مخصوص شیپ اور رنگوں کو مروج کر دیا ہے اب ،
لانگ روٹ پر بھی یہی مستری لوگ دیکھ بھال کرتے ہیں ان بسوں کی جو کھوکھا نما بکس میں ضرورت کے اوزار رکھے روڈ کی سائڈ پر پٹرول پمپوں یا مقامی لائن ہوٹلوں کے قریب بیٹھے ہوتے ہیں
جو سو پچاس روپے یا تھوڑے زیادہ لے کر چھوٹی موٹی سیٹنگ کو اپنی جگاڑ سے درست کرتے ہیں مخصوص ذہن کے ساتھ کہ گاڑی اللہ پاک کے سہارے چلائی جاتی ہے ،،نا کہ دیکھ بھال سے
اکثر ایسی بسوں میں ایک شعر بہت نمایاں لکھا ہوتا ہے ڈرائیور کی سیٹ کے اوپر ۔۔کہ
نا انجن کی خوبی نا کمال ڈرائیور
گاڑی چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے ،،
بیشک خدا وند عالم کا سہارہ ہہی رواں رکھتا ہے سب کچھ مگر بطور عاقل انسان ہمارا بھی کچھ حق ہے کہ ہم سسٹم کو بہتر طور پر چلائیں اپنی عقل و علم سے ان وجوہات کو دیکھیں جن سے حادثات ہو سکتے ہیں قیمتی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں ۔۔اللہ پاک نے منع نہیں فرمایا اس سے ،،
ان لوکل میڈ کمپنیوں کی بسوں کی سپیڈ اور اووٹیکنگ ایک طرح سے ضرب المثال بن گئی نوے کی دہائی میں ،،
بچپن میں اور جوانی میں ان کی سواری کی ہے خوف سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے تھے ۔۔ایسے لہرا کے اوور ٹیکنگ کرتے ہیں کہ الاماں،،یوں لگتا ہے جیسے گاڑی ابھی الٹ جائے گی ،،(جیسے کلر کہار میں شالیمار ٹائم کی حادثے والے گاڑی الٹ بھی گئی )اسی خوف کے پیش نظر ان کی سواری چھوڑ دی ،، عرصہ دراز سے
پرانے ماڈل کی اسیزو ۔۔،،نسان ،یا بیڈ فورڈ گاڑیوں میں جدید ماڈل کی اے سی گاڑیوں والا ایک بھی سسٹم نہیں ہے ان میں مگر سپیڈ ان کی جدید ماڈلوں سے زیادہ ہوتی ہے آج بھی،، ۔۔مقابلہ بازی ،پرچی ٹائم ، اے سی گاڑیوں سے پہلے یا برابر پہنچنے کا جنون ،، یعنی سواری کو ۔برانڈ لگژری گاڑیوں کے وقت سے پہلے پہنچانے کوشش کرنا یا برابر ،اس کا بنیادی فیکٹر ہیں آج بھی،
کم سپیڈ ،یا احتیاط پسند ڈرائیور کو ان گاڑیوں کے مالکان بزدل اور ہلکا ڈرائیور سمجھتے ہیں ،،اسے بس ڈرائیوری ملتی بمشکل ہے ان گاڑیوں میں ،،کم اجرت زیادہ کام بھی عام ہے اس طرح کی بسوں میں ،
ایک ظلم اور ہوتا ہے ان بس مالکان کا ۔۔چار سے پانچ سو کلو میٹر کے روٹ بلکہ بہاولپور سے کراچی تک یعنی تقریبا 9 سو کلو میٹر کے سفر میں ایک ہی ڈرائیور رکھتے ہیں اکثر یہ جو گاڑی کو منزل تک لے جاتا ہے ۔۔اور پھر اسی کو یہ گاڑی واس بھی لانا ہوتی ہے ہے گرمی ،،سردی نا کافی نیند،، اور کم اجرت ۔۔اوپر سے پرچی ٹائم کا دباؤ دوسرے ڈرائیورز سے ٹائم کا مقابلہ اوور سپیڈ کی اہم وجہ ہے
۔۔لیکن سب سے بڑھ کر ایک اہم وجہ بھی نوٹ کی ہے میں نے اکثر ڈرائیور شوقیہ بھی گاڑی کو تیز بھگاتے ہیں ۔
اور پھر فخریہ اس کا اظہار کرتے ہیں ۔۔
تنگ جگہوں سے رش میں سپیڈ سے اوور ٹیکنگ کو فخریہ انداز میں دیگر ڈرائیور سے بیان کیا جاتا ہے ،،
ان کی سپیڈ ایک طرح سے ضرب المثال بن گئی ہے ،،
نیو خان بس کمپنی کی سپیڈ آج بھی سب سے تیز سپیڈ سروس سمجھی جاتی ہے ۔۔
اور نچلے طبقے کے لوگ ،،اس پر فخر کرتے ہیں اور عام چھوٹی بسوں کے مالکان بطور رجھان ۔۔۔گاڑیوں کے پیچھے ،نیو خان ٹائم لکھواتے تھے ،،یعنی ہماری سروس بھی نیو خان والوں کی طرح تیز ترین ہے ۔
عوام کو عام اے سی یا برانڈڈ اے سی گاڑیوں سے کم کرائے کا لالچ دے کر بٹھایا جاتا ہے عوام مہنگائی کی ماری ہوئی لالچ میں بیٹھ جاتی ہے ۔
شالیمار کمپنی کی اوور سپیڈنگ اور اولڈ ماڈل بسیں مشہور ہیں بلکہ شالیمار ٹائم سر فہرست سمجھا جاتا ہے اوور سپیڈنگ میں آج کل ،، شالیمار ،وڑائچ ٹائم ،احباب ایکسپریس چیمہ ٹرانسپورٹ ،، ،،وغیرہ، آج بھی لمبے روٹ پر عوام کو کم پیسوں میں حتی کہ سواریوں کو چھتوں پر بٹھا کر اوور سپیڈنگ کرتے ہیں ،،اوور لوڈ کے ساتھ چھت پر وزنی سامان لادنا عام روٹین ہے ان کی ،،سامان بھی ایسا وزنی کہ عام طور اے سی گاڑیاں ان کو نہیں اٹھاتیں ،،مگر یہ ظالم لوگ اٹھا لیتے ہیں ،،
ابھی کچھ دن پہلےمیرے جاننے والے ایک لڑکے نے لودھراں کے نواحی علاقے قریشی والا سے کراچی نو سو روپے کرایہ پر چھت پر جگہ بک کرائی وہ بھی بذریعہ موٹر وے ۔۔۔ حالانکہ عام کرایہ سیٹ کا پندرہ سو 22 سو تک ہے ان بسوں میں بھی
اس کے ساتھ کئی اور لوگوں نے چھت پر سفر کیا چھت کے اونچے جنگلے بارڈر اسی وجہ سے لگائے جاتے ہیں ،، جس میں سواریوں کے ساتھ سامان بھی رکھا جاتا ہے ۔۔
گاڑی اوور ٹیکنگ کے وقت چھت پر زیادہ وزن کی وجہ سے ،جھول جھول جاتی ہے ،مگر مجال ہے کہ ڈرائیور کو خوف آئے ،،
سوشل میڈیا پر ان کی اوور سپیڈ اور اووٹیکنگ کے وقت لہرانے کی ویڈیوز کی بھرمار ہے ،،
دوسرا ظلم یہ ہے کہ اگر گاڑی کے اندر سیٹیں خالی بھی ہوں تو بھی چھت والی سواریوں کو اندر جانے کی اجازت نہں ملتی ۔۔سوا منزل کے قریب پہنچ کر گاڑی میں اکثر جگہ خالی ہونے پر
یہی سب کچھ کلر کہار میں شالیمار ٹائم کے ساتھ ہوا ہوگا،،
گو میں عینی شاہد نہیں ہوں اس حادثے کا ،، مگر ان وجوہات کو جو بیان کی ہیں اور جن کا پتا پولیس ۔۔بس مالکان ۔۔اور سواریوں کو بھی ہے ۔۔سے نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے ۔۔
سوشل میڈیا پر اس حادثے کی ویڈیوز میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ خطرناک موڑ پر بھی بس ڈرائیور سپیڈ کم نہیں کر سکا ۔۔وجہ بریک فیل ہونا تھا یا ڈرائیور کا بے خوف اعتماد تھا ،،اس پر کچھ کہنا نہیں چاہتا ،،
کلر کہار کے اس حادثے والی جگہ پر یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس جگہ حادثے ہو چکے ہیں ایک طرح سے ڈینجر زون ہے یہ علاقہ ۔جہاں موٹر وے پولیس ،،
30 کلو میٹر سپیڈ لمٹ دیتی ہے گاڑیوں کو اور بار بار بریک لگانے سے اجتناب کی ہدایات کرتی ہے ۔۔
بار بار بریک لگانے سے بریک لیدر گرم ہونے سے چپک ختم کر دیتے ہیں ۔۔جس سے گاڑی کا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے ۔۔
وجوہات تو اور بھی بہت ہیں مگر ایک کرپٹ بیورو کریسی کی موجودگی میں خرابیوں نشاندہی کرنے کا فائدہ ہی کیا ،،
سب کو سب پتا ہے ،،مگر کرپشن کی وجہ سے چپ ہیں سب ،،
ضرورت اس امر کی ہے کہ لوکل کمپنیوں کی ان بسوں کے مینٹیننس سرٹیفکیٹ کی جانچ پڑتال از سر نو کی جائے اور ان کے مالکان کو پا بند کیا جائے کہ وہ ڈرائیورز کو زیادہ کریں لمبے روٹ پر کم سے کم دو ڈرائیو ہوں ،،
یا ان لمبے روٹ پر ان پرانی 72 سیٹر بسوں کو چلانے کی اجازت ہی نا دی جائے ،،
فیاض حسین بخاری
