ہم اور ہماری ڈیجیٹل ترقی؟

Fayyaz Bukhari

https://harfalfaz.blogspot.com

 زندگی بہت سادہ اور خوبصورت تھی 

لوگ آپس میں مل بیٹھتے تھے ۔ایک دوسرے  کی سنتے تھے ۔۔باہمی الفت محبت آج کی نسبت زیادہ تھی ۔۔

اکثر لوگ تو  حجام کی دکانوں پر ،گھر کے سامنے تھڑے پر ،محفل بنا لیتے تھے راہ چلتے ،حجام کی دکان۔ خبروں کے حصول کا مرکز ہوا کرتی تھی ،یا پھر چھپر ہوٹل ،جسے کیفے ڈی پھونس بھی کہا جاتا تھا ،  اور اب بھی کیفے ڈی پھونس کا نام استعمال ہوتا ہے کہیں کہیں ۔

حجام کو چلتا پھرتا ریڈیو سمجھا جاتا تھا ،

پرانے زمانے میں حصول خبر کا سب سے اچھا زریعہ حجام سمجھا جاتا تھا ،جس کے سینے میں بے شمار راز ہوتے تھے ،ہر گھر کے ہر فرد کے ،یعنی موجودہ وقت کا گوگل سمجھ لیں حجام کو،

خبریں سینہ با سینہ ایک کان سے دوسرے کان تک سفر کرتی تھیں،

جدید زرائع ابلاغ ،

پرنٹ میڈیا 

پرنٹ میڈیا بہت اہم تھا ،ناشتے کی میز ہو یا پھر کیفے ڈی پھونس کی ٹوٹی پھوٹی ایک ٹانگ سے محروم میز اخبار زندگی کا لازی جز تھا ،یا پھر ٹی وی ،سادہ سا ایک ٹی وی جس کا نو رات کا خبرنامہ ہی اہم سمجھا جاتا تھا یا صبح کے سات بجے والی مختصر خبریں زریعہ تھیں ابلاغ کا ،

 ٹیلیویژن

  ٹی وی پر بچوں کے پروگرام ایک مخصوص دورانئے میں آن ائیر  ہوتے تھے ،،مخصوص وقت پر ،،

خواتین  کے پروگراموں کا بھی ایک مخصوص وقت ہوتا تھا ۔

سات بجے کی خبروں کے بعد نوبجے تک فیملی ڈرامے اور پروگرام ہوتے تھے ۔۔نو بجے کا  خبرنامہ حد ہوتی تھی عام گھروں میں ٹی وی  نشریات دیکھنے کی ۔

  ڈش انٹینا اور پھر کیبل،

 ڈیجیٹل ترقی ہوئی، ڈش انٹینا آگیا ۔۔لوگ اس میں گم ہونے لگے ۔۔ وقت بےوقت  طرح طرح کے چینل آن ایئر ہوتے گئے جن میں ہر طرح کا مواد نشر ہونے لگا ،،پوری فیملی کا ساتھ بیٹھ کر پروگرام دیکھنا مشکل ہوتا گیا ،،

 پروگرام بھی ایسے کہ دیسی کلچر والے لوگ اکٹھے بیٹھ کر نھی دیکھ سکتے تھے ،،

پھر اسکا حل یہ نکالا گیا کہ ہر کمرے میں الگ الگ ٹی وی رکھ دیا گیا ۔۔

یعنی آپس کا رابطہ  ٹوٹنے لگا کھانا بھی سب اپنے اپنے کمروں میں کھانے لگے ،، دن با ، دن ایک دوسرے سے دوری ہونے لگے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی 

  سادہ  موبائل

 وقت کی رفتار نے زور پکڑا تو سادہ موبائل آگیا ،

جس پر کال کرنے کے ساتھ ایس ایم ایس کرنے کی سہولت بہت حیران کن لگتی تھی اس وقت دور کی خبر انفرادی زریعے یعنی موبائل  سے منٹوں سیکنڈوں میں ایک دوسرے تک پہنچا نے کا مرحلہ بہت آسان ہوگیا ،اہم کام دور دراز کے موبائل کے زریعے ہونے لگے سفر کرنے کی نوبت کم ہو گئی ،وقت کی بچت الگ ہوئی۔

پھر موبائل سمارٹ ہوگیا ۔۔

ٹو جی نیٹ پر پھر بھی کچھ حالات بہتر تھے تھری جی تک،،

 مگر پھر  نیٹ فور جی ہوا  تو لوگ ایسے بیگانہ ہوگئے  ہیں ایک دوسرے سے کہ ،

اب پاس بیٹھ کر ہوں ہاں کرتے ہیں حقیقی رشتوں سے ،

نظر اور ذہن  موبائل سکرین  کی نوٹیفکیشن بار میں لگا ہوتا ہے ۔

بات کرتے کرتے  ایک دم موبائل میں گم ہوجاتے ہیں ۔۔۔

ایسا مصنوعی ماحول بن گیا ہے کہ لگتا ہے جیسے کچھ بھی نھی رہا ہمارے پاس سوا اس چھے انچ کے  سمارٹ موبائل کے ،۔

ٹیلیویژن ،اخبار ، پرنٹ کتاب ،ریڈیو،کھانے کے بعد لگتا ہے ،کہ یہ ہمارے سماج کی مل بیٹھنے مل کر کھانے کی اقدار کو بھی کھا گیا ہے ،😟یہ سمارٹ موبائل ،

 ڈیجیٹل ترقی کے میں خلاف ہرگز نہیں ہوں،مگر اس کے مثبت استعمال کا قائل ہوں  


ہمیں سب سے زیادہ فکر نیٹ پیکج اور موبائل چارجنگ کی ہوتی ہے ۔۔

حتی کہ ہسپتال میں  جائیں کسی ایمرجنسی صورتحال میں تو چارجر ساتھ لے جاتے ہیں ۔۔


مجھے یاد ہے کہ پہلے ہسپتالوں میں لوگ ایک دوسرے کا حال احوال لے کر دل جوئی کیا کرتے تھے ایک دوسرے کی ،،

کھانے پینے کی چیزیں ایک دوسرے کو دیا کرتے تھے ۔۔

باقی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے تھے ۔۔۔

مگر اب گھر کا ایک نکما فرد مریض کے پاس بٹھایا جاتا ہے

 (اگر مرض کی نوعیت زرا لمبی ہو تو ،،)

 جس کو  اپنے مریض یا آس پاس کے دیگر مریضوں سے زیادہ ۔۔

موبائل فون میں دلچسپی ہوتی ہے ۔۔

باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت اسے پیکج لگوا کر دیا جاتا ہے نیٹ کا ،،تاکہ وہ مریض کے پاس بیٹھا رہے ،اب مریض چاہے جس کنڈیشن میں ہو ،صاحب اس کی پرواہ کم اور ،موبائل کا دھیان زیادہ رکھتے ہیں،

کتنا بڑا المیہ ہوا ہے یہ ،جس کی ہمارے سماج کو خاص پرواہ تک نہیں ہے 

پتا نہیں ہماری سماجی اقدار کہاں گئیں،جہاں مل بیٹھتے تھے ہم ،

پتا نھی کیوں مجھے لگتا ہے کہ ❗

ہم مرنے سے پہلے اپنی قبر میں آ گئے ہیں تنہا تنہا اکیلے اکیلے ۔😞

یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کوئی اختلاف کرے اس کی مرضی ہے کہ ترقی تو ہوئی ہے مگر ہم نے اس ترقی کا مثبت  فائدہ کم  اٹھایا ہے ۔۔۔

فیاض بخآری