"ہم دیہاتی لوگ ہیں"
کھیت میں لگے اس گنے کی طرح
جسے تم اپنے سخت ہاتھوں سے توڑ کر
اپنے دانتوں سے چھیل بھی دو
مگر وہ تب بھی تمہارا منہ مٹھاس سے بھر دے گا
ہم دیہاتی لوگ ہیں
مٹی کی ہانڈی میں پکتے
سرسوں کے ساگ کی طرح
جو ایک چولہے تک محدود نہیں ہوتا
ہم دیہاتی لوگ ہیں
اچار کی ایک پھانک روٹی پر رکھ کر کھانے والے
اور لسی کے ایک گلاس پر میٹھی نیند سو جاتے ہیں
شکر اور قناعت ہمارا ورثہ ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں
مٹی کے چولہے پر گیلی لکڑیوں کے دھویں میں
پکی گُڑ کی چائے
پرچوں میں ٹھنڈی کر کے
شُڑ شُڑ کر کے پینے والے معصوم لوگ
ہم دیہاتی لوگ ہیں
کچے گھروں کے باسی
نرم گارے سے لِپے ہوئے ہمارے گھر
کہ جس گارے سے انسان کی تخلیق ہوئی
اسی لیے تو ہمارے دل نرم ہیں مٹی کی طرح
اور ہماری قبریں بھی کچی ہوتی ہیں ھم مل جانے والے لوگ
کبھی اپنی اوقات نہیں بھولتے
دنیا ہمیں دھوکہ میں نہیں ڈال سکتی
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہم اپنے بزرگوں کی روایتیں
سر پر پگڑی کی طرح باندھے رکھتے ہیں
حتٰی کہ سوتے وقت ان پگڑیوں پر سر رکھ کر سو جاتے ہیں
ہم ہاتھوں پر گھڑیاں نہیں اچھا وقت باندھ کر
ہر ایک سے خوش دلی سے ملتے ہیں
ہم چہرے پر ہر صبح مسکراہٹ تازہ کرتے ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں ۔۔۔۔!!!
With courtesy of Punjab university ( AER)