ضیاء الحق کے دور میں۔۔ بہشتی نہر کے دیہاتی علاقے میں جو جہانگیر خان ترین کے گھر سے نزدیک ہے دو چار کلو میٹر دور ۔۔۔
ملتان بہاولپور روڈ پر ۔۔
ساتھ ہی برگیڈئیر یا شاید کرنل نسیم خان سدو زئی صاحب کا ایک زرعی فارم بھی ہے ۔۔۔
جو اب سدو زئی فارم کہلاتا ہے مگر اس وقت صرف دیرہ کہلاتا تھا ،
جس میں ایک ریٹائرڈ فوجی منشی کے فرائض ادا کیا کرتا تھا ۔۔
کافی عرصے سے ،،
سرخ سپید لمبا تڑنگا سا میؤ تھا
جو آس پاس کی غریب عوام کے لئے کرنل ہی تھا بقلم خود
وہ مرضی کا مالک ہوا کرتا تھا کرنل صاحب کی غیر موجودگی میں۔۔
کرنل صاحب کی موجودگی میں وہ کسی کو بولنے کا موقع کم ہی دیا کرتا تھا ،
اور کرنل صاحب سال میں دو چار ہی چکر لگایا کرتے تھے ڈیرے پر ،،
ترین قوم کے کچھ خاندان اس زمانے میں نئے نئے آئے تھے تربیلہ ڈیم سے مہاجر بن کر اس علاقے میں ،
اور یہاں کچھ زمینیں ان کو الاٹ ہوئیں تھیں ۔۔ کیسے ہوئیں کتنی ہوئیں یہ مجھے معلوم نھی ہے اب تک ۔۔
تب جہانگیر خان ترین اب والا ترین نھی تھا ۔۔۔ بلکہ سادہ سودا سے ایک جٹ خاندان کا بیٹا تھا تھا بس ۔۔
اس علاقے کے مکتب سکیم سکول سے ملحقہ ایک مسجد میں ظہر کے بعد کے وقت میں ہم سب لڑکے لڑکیاں
سکول سے چھٹی کے بعد مسجد کے اندر دائیں بائیں قطار میں قرآن مجید کا سبق پڑھا کرتے تھے
مسجد کی جنوبی سمت میں شمال کی جانب رخ کیئے،
استاد محترم غلام یسین صاحب،،
کچھ بچوں کا سبق سن رہے ہوتے تھے۔
کسی کو ہلکی سی پنسل چھبو دیتے ۔
یا مصنوعی غصیلی آنکھیں دکھاتے ۔
جو کبھی کبھی حقیقی غصے میں بدل جایا کرتی تھی ۔۔
ورنہ اکثر مہربان ہی رہا کرتی تھیں باپ کی شفقت جیسی تھی ان کی آنکھیں۔
یا زیادہ غصہ ہوتا،،،
ڈرانا ہوتا بچوں کو تو پتلا سا چھوٹا سا ڈنڈا سامنے رکھے ڈیسک نما چھوٹے سے پھٹے پر کھڑ کھڑا دیتے تھے ۔۔۔
کبھی کبھار کسی بچے کو کان سے پکڑ کر ادھر ادھر بھی کر دیتے تھے ۔۔۔
اور وہ بچہ جدھر استاجی کا کان پکڑے ہوئے ہاتھ جاتا ادھر جھول جاتا خود ہی ،،
تب یوں لگا کرتا تھا جیسے بچہ ہلکورے سے لے رہا ہو دائیں بائیں نیند والے بے تکے جھونکوں کی طرح بے ربط اور بے ردھم سے ۔
جیسے کسی رقاص کے پاؤں ساز کی لے کے خلاف بہک رہے ہوں بے ارادہ ،،
اس دوران ہم اور ہم سے کچھ دوسرے چالاک لڑکے یا لڑکیاں سبق سناتے ہوئے کچھ آیات کا غوطہ لگا لیتے تھے جو یاد نھی ہوتی تھیں ۔یعنی ان کو پڑھے بنا چھوڑ دیتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد محترم جب تک کسی نالائق بچے کی گوشمالی سے فراغت پاتے۔۔
تب تک ہم گزشتہ کل والا سبق جہاں سے یاد ہوتا اونچی آواز میں سنا کر ۔۔
اور جہاں سے یاد نا ہوتا۔۔۔
وہاں سے ایک دم آگے غوطہ لگا کر معصومیت سے سر جھکائے اگلے دیے جانے والے سبق کا انتظار کر رہے ہوتے تھے ۔۔۔
حضرت صاحب پہلے تو زرا سا سٹپٹاتے،
پھر ہماری آنکھوں میں دیکھتے کچھ کھوجنے کو ۔۔
پھر سبق والے صفحہ پر پنسل سے لگائے گئے اپنے مخصوص کوڈورڈ نشان پر رکھی ہماری انگلی کی مضبوطی کو دیکھتے،،
ایک دو پل اندازہ لگاتے کہ گھپلا کہاں ہوا ہے ۔۔
مگر ہم بھی روز روز کی مشق سے ماہر ہو چکے تھے اداکاری میں ۔۔۔
نہایت استقامت سے چبھتی آنکھوں کے شکوک کا ڈٹ کر ڈھٹائی سے سامنا کرتے ،
بھولپن کی آخری حدوں کو کراس کرتی ہماری اداکاری سے متائثر ہو کر ۔
حضرت صاحب کچھ بڑبڑا کے اگلے دن کا سبق پڑھا دیتے اور ہم جلدی سے سٹک جاتے قطار میں اپنی مخصوص نشست کی طرف ۔۔
اور کبھی شامت اعمال سے یوں بھی ہوتا کہ ان کو شک زیادہ ہوتا تو سبق کو دوہرانے کا حکم دے دیتے جس سے ہماری ننھی سی جان فناء سی ہو جاتی تھی ۔۔
کئی بار کی ہلکی سی مرمت کے بعد ہمیں ایک دن ایک استادی سوجھی ،،
ہم نے اگلی بار مرمت سے پہلے اسے آزمانے کا فیصلہ کر لیا اور ایک منصوبہ بنا لیا اپنے ننھے سے شیطانی دماغ میں،،
اب ہوتا یوں کہ جب سابقہ چالاکی دکھانے پر شک کا پلڑا بھاری ہونے پر ۔۔۔۔۔۔۔
سبق دوہرانے کا حکم ملتا اسی دوران ہم کو زور سے موتر آجاتا ،،
اور ہم پیٹ پر ہاتھ رکھ کر دوہرے سے ہونے لگتے ساتھ چھوٹی انگلی کھڑی کر دیتے تھے۔ ۔۔
جو موتر کے لئے چھٹی کا غیر سرکاری مگر باادب تہذیبی اشارہ مانا جاتا تھا پورے سکول اور مسجد میں ۔
اب ایک نیا ججمنٹ شروع ہو جاتا ۔
استاد جی کبھی ہماری کھڑی انگلی کو دیکھتے
اور کبھی دوسرے ہاتھ کو جس سے ہم پیٹ کے نچلے سے زرا اوپر والے حصے کو مروڑے دے رہے ہوتے تھے ۔۔۔
اس دوران کمر کو زرا سا جھکا کر دوہرا ہو کر موتر والی جگہ کو چھپا بھی لیتے تھے
دوسرے ہاتھ سے مروڑے جاری رہتے تھے
اس دوران ہماری اداکاری عروج پر ہوتی تھی سارے جہان کا درد لاچاری اور مجبوری اپنی معصوم سی بڑی بڑی آنکھوں میں سمو چکے ہوتے تھے ۔۔
اب ناگواری سے استاد جی دفعہ ہونے کا اشارہ کرتے شہادت کی انگلی سے ،،
مگر ان کی آنکھیں مشکوک ہی رہتی تھیں اجازت دے کر بھی ۔،،
اب اگر عصر کا وقت قریب ہوتا جو چھٹی کا وقت بھی ہوتا تھا
تو ہم تسلی سے باہر نکل جاتے کھیتوں میں ایک لوٹا پانی بھر کے ،، دکھاوے کا
اور یونہی پھرتے پھراتے رہتے ،،،
یا باہر نلکے پر آنے والے دوسرے بچوں سے چھیڑ چھاڑ کر لیتے اگر موڈ زرا شوخ ہوتا تو ۔۔
لیکن ہماری نظر متواتر مسجد کے مرکزی دروازے پر ہی ہوا کرتی تھی کہ کبھی کبھار استاجی اچانک باہر کا چکر بھی لگا لیتے تھے
اور کان مسجد سے اذان عصر کے منتظر رہتے تھے ،،،
جونہی مسجد کے اونچے چبوترے سے بنا سپیکر کے
اذان کی پہلی تکبیر بلند ہوتی ہم ایک دم سے ہلکے پھلکے سے ہوجاتے۔
اور خود کو بڑے فخر سے ایک تھپکی دے کر نلکے پر وضو کرنے چل پڑتے۔۔۔
نماز عصر کو ادا کرنے کے لئے ۔۔۔
وہاں کچھ چالاک لڑکے جو خود بھی چلتے پرزے قسم کے ہوتے تھے
جو مسجد کی ہر قسم کی حرکات پر گہری نگاہ رکھتے تھے،
کسی شکرے کی طرح ۔۔۔
وہ بڑی کمینگی سے مسکراتے ہوئے ہمیں کمینے سے اشارے کرتے۔
دائیں ہاتھ کی مٹھی کو بند کر کے ہاتھ کو کہنی تک آگے پیچھے کرنا مخاطب کی طرف مکار سی مسکان سے دیکھتے ہوئے۔
اس زمانے میں انتہا کا کمینہ اشارہ سمجھا جاتا تھا ۔
جو اب ایک عام سا اشارہ ہے کمینہ پن کے اشاروں میں
اب تو جدید اشارے وجود میں آ چکے ہیں کمینے پن کو ننگا کرنے والے،
جن سے ہم سے لوگ ہنوز نا واقف ہی ہیں ۔۔۔
خیر ہم بڑی ڈھٹائی سے کھسیانی ہنسی سے لاپرواہی کا کندھے اچکا کر جوابی اشارہ کرتے تھے کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا ۔۔۔۔
اب ان کمینوں میں زیادہ کمینہ یار ہمیں گھیر لیتا اور جال بچھاتا ہمیں پھنسانے کا۔۔
بلیک میلنگ اسکا سادہ طریقہ ہوتا تھا۔۔
استاجی کو بتا دوں گا کہ تم نے سبق نھی سنایا تھا کل اسکا ڈراوا ہوتا تھا ۔۔
مطالبہ تھوڑی سی ریوڑیاں ہوتی یا کوئی اور من پسند چیز ہوا کرتی تھی
کمینہ یار پیسے نا ہونے کا رونا سن کر پوری جامہ تلاشی کے بعد ترس کھاتے ہوئے کوئی ضمانتی مانگا کرتا تھا ۔۔
جو آس پاس ہی پھر رہا ہوتا تھا اور کافی ہتھ چٹھ دھانسو مہا کمینہ ہوتا تھا
وہ اگلے دن کے وعدے پر ضمانت اس شرط پر دیتا تھا کہ مطالبے کی چیز میں آدھا کمیشن بطور سروس فیس کے اسے ادا کیا جائے گا اور یہ فیس یا کمیشن عموماً دونوں فریقوں کو ادا کرنا ہوتا تھا یعنی مجھے بھی اور مجھے گھیرنے والے بلیک میلر کو بھی ،،
تب جان چھوٹ جایا کرتی تھی اس وقت تو۔۔
مگر دوسرے دن مطالبہ پورا نا کرنے پر ضمانتی اور بلیک میلر حرامی دونوں لازمی شکایت لگا دیا کرتے تھے استاجی کو،، نمک مرچ کے ساتھ فل تڑکا لگا کر ۔۔۔
اس وجہ سے ہم خرچے میں ملنے والے ایک روپے کو آدھا قربان کر دیا کرتے تھے عزت اور چمڑی بچانے کے لئے۔
یوں دو فائدے ہوا کرتے تھے ایک تو ہماری امارت کی دھاک بیٹھتی تھی سبھی بچوں پر۔ کیونکہ اس وقت دیہات کے بچوں کو گھر سے ایک روپیہ نھی ملا کرتا تھا ۔
حد کسی کے پاس چونی اٹھنی ہوا کرتی تھی غربت کی انتہا کی وجہ سے۔۔۔۔
گو غریب ہم بھی بھت تھے ۔۔۔
مگر ماں کا اکلوتا نور نظر باپ کا چوتھا لخت جگر ہونے کی وجہ سے °
نوٹ
(ہمارے بابا جان کی دو شادیاں تھیں ایک ہماری بہن اور تین بڑے بھائی پہلی اماں حضور سے تھے یوں ہم ان کے چوتھے فرزند ارجمند ہوئے دوسری بیوی سے ہمارے بعد میں تین اور بھائی بھی پہلی اماں حضور سے ہی ہوئے۔۔ گو بابا جان کو دعوا عشق تو ہماری والدہ سے تھا مگر شاید عشق کا ثمر ہماری پہلی امی کو ہی ملتا رہا
ہم اپنی اماں حضور کے اکلوتے نور نظر ہی رہے )☺️
ہماری اماں حضور ہمیں ہر حالت میں جیب خرچ دیا کرتی تھی جو ناسازگار حالات میں اٹھنی اور عام حالات میں ایک روپیہ ہوا کرتا تھا ۔یہ انیس سو اٹھاسی کا زمانہ تھا یا ایک سال اوپر ہو شاید
کبھی کبھار پنسل ۔گاچی ۔۔۔مس (سیاہی کی پڑیا ) یا بتی سلیٹ پر لکھنے والی سلیٹی ۔۔ کے نام پر اماں حضور سے فراڈ بھی کیا کرتے تھے وہ اٹھنی یا روپیہ کبھی کبھی دو روپے بھی۔۔۔۔ بچ جایا کرتے تھے فراڈی بونس میں ۔۔
مگر اس سے بھی ایک مسلہ ہوا کرتا تھا ۔ مس کی پڑیا ۔۔یا گاچی ختم ہونے ۔۔ پر ہمیں کمینے یاروں سے ادھار لینا پڑتی تھی ایک پڑیا ۔۔۔ایک پیڑا گا چی، کا جو کچھ دن لازمی لوٹانا بھی پڑتا تھا
دوسرا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ضمانتی اور بلیک میلر سے یارانہ ہو جایا کرتا تھا جو بعد میں کام آتا تھا ۔
یہ سادہ سی سیاست تھی جو ہم نے ضیاء الحق کے مکتب سکیم مسجد سکول سے سیکھی،،
اور عجیب بات ہے کہ اس سیاست کا عملی مظاہرہ کبھی نا کر سکے اس دیہاتی سکول سے نکلنے کے بعد ۔۔۔۔
پتا نھی کیوں یہ بات آج تک نھی سمجھ سکے ہم
ہماری یادوں کا پہلا سلسلہ ۔۔جو جاری رہے گا انشاءاللہ ۔۔فیاض حسین بخآری