آنکھوں کا بندھن

Fayyaz Bukhari

 


قد اسکا اوسط سے ایک آدھ انچ کم تھا ،،

 رنگت، گندمی ،،بلکہ ہلکی  ہلدی ملے ہوئے  دودھ جیسی تھی ،

کتابی اور گول چہرے کے درمیان عجیب امتزاج والا چہرہ ،

سڈول ہاتھ پاؤں ، بدن بھرا ہوا،اتنا کہ دیکھنے میں خوشنما لگتی تھی ،،

عمر بلوغت کے قریب تھی چودہ  پندرہ سال کے قریب غالباً،، نام لکھنا نھی چاہتا  کہ مناسب نھی ،،

عمر میری بھی یہی تھی اس وقت  ،،مگر مردانہ حسِ بلوغت نے آنکھ کھول لی تھی  ،، 

اور کسی  معصوم بچے کی طرح آس پاس دیکھتی تھی ، 


رنگ و روپ کے ساتھ بدن کے نشیب و فراز کو ،،

جہاں کہیں بدن کے  نشیب و فراز میں زیادہ فرق دکھائی دیتا  ،،یا چہرہ من بھانولا ہوتا تو، دل میں ایک عجیب میٹھی سی کسک جاگ اٹھتی تھی  ،،

دھڑکن ایک دم تیز ہوجاتی تھی دل کی  ،،

مجھے  اس وقت اس  دھڑکن کی سمجھ نھی آتی تھی،

 پوری طرح کہ،،

 اتنا تیز دوڑ کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہے  دھڑکن دل ،

کس منزل کی جستجو میں ہے ،،

انہی دنوں میں ایک دن، تین بجے  کے  قریب سکول سے چھٹی کے بعد ، میں

مسجد میں قرآن مجید کا سبق پڑھ رہا تھا ،،

لڑکے اور لڑکیوں کی دو قطاریں آمنے سامنے  بیٹھی ہوئی  تھیں ،، الگ الگ ،،

میرے سامنے مشرقی جانب لڑکیوں کی قطار تھی ،،

 عین میرے سامنے کی قطار سے،،

دو  گہری سیاہ  سفید بڑی بڑی سی  آنکھوں نے اپنے سامنے بیٹھی  بچی کے سر کو ہاتھ سے دائیں طرف ہٹا کر ،،

 مجھے گہری نظر سے دیکھا  ،، کہ وہ چھوٹی بچی عین اس کے سامنے تھی اور  دیکھنے میں رکاوٹ بن رہی تھی ،،

عجب بات یہ ہے کہ اس کے دیکھتے ہی میری آنکھیں بھی خو بخود کسی  سحر زدہ معمول کی طرح ان آنکھوں کی طرف جی جان سے متوجہ ہو گئیں،،

ان آنکھوں میں ،،کشش ،، اپنائیت  اور  پتا نھی کیا  تھا ،،جس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل لگ رہا ہے،،

میں ان  نگاہوں کے حصار میں قید  سا ہو گیا ،، 

 ایسا لگا  ان آنکھوں کے سوا اور کچھ نھی ہے آس پاس ۔۔ 

أن آنکھوں نے جیسے مجھ پر کوئی سحر سا پڑھ کر پھونک دیا ،،

نا مجھ میں نظر ہٹانے کی طاقت تھی نا ہلنا جلنا یاد رہا مجھے ،،

عجب پر اسرار سی مسکراتی آنکھیں تھیں ،،

جیسے کہ رہی ہوں جرائت ہے تو  اپنی آنکھیں ہٹا لو میری کشش سے ،،

وہ دھیما سا  مسکراتی آنکھیں تھیں،،

ہر طرف  سے بیگانہ بے پروا ، 

ہو کر صرف میری نگاہوں کو  میرے وجود کو اپنے حصار میں قید کر رہی تھیں ۔۔

میرے وجود کو جذب کرتی جا رہی تھیں خود میں،،

حیرت ناک بات یہ تھی ،، میں بھی جذب ہو رہا تھا  ان آنکھوں کی  وسعت اور کشش میں ،،

زرا بھی احتجاج نھی کر رہا تھا میں یا میرا دل ،

آس پاس سب سکوت تھا سب آوازیں خاموش ،مکمل تخلیہ،،

بس ان آنکھوں کی پر کشش  لہر نما آواز تھی،

 جس کوصرف  میری آنکھیں  محسوس کر رہی تھیں ،،

سن رہی تھیں ،،سمجھ رہی تھیں،،

اور شاید اتنے ہی شوق سے جواب بھی دے رہی تھیں ،،

یہ آنکھوں کے راز و نیاز ،،

حاصل وصول ،،سرور ،،اسرار ،،

بس چند لمحوں میں طے ہوئے تھے ،،

دو تین یا حد دس سینڈ  ،،

مگر ان چند لمحوں میں  ساری زندگی کی مسافت طے ہوگئی میری ،،

محبت  یا عشق ۔۔یا انس کہ لیں ،  یا جو مرضی کہ لیں ، ہاں ہوس نھی تھی کہ وہ عمر ہوس کی تھی ہی نھی ،،کی ابتدا اور اس کی  انتہا طے ہوگئی ،،،

 ان چند سیکنڈوں میں،،

ان چند سیکنڈوں میں ان آنکھوں نے مجھے اپنا اسیر کر لیا ،،جس کا مجھے پتا ہی نھی چلا  تھا اس وقت ،،


اس کے بعد مجھے،

 اپنے ساتھ سبق پڑھنے  والے ایک لڑکے کا کہنی مارنا  یاد ہے ،،

یا اس کا  معنی خیز نظروں سے کچھ بات کرنا  بھی یاد ہے ،،

اس لڑکے کے کہنی مارنا تھا کہ ،،


اس کی ساحرانہ آنکھیں ایک دم شعلہ سا ہوئیں جیسے ،دخل  اندازی کرنے والے کو جلا کر بھسم کر دیں گیں،،

مگر پھر جانے کیا ہوا ۔۔۔کسی انجانے خوف نے ڈرایا ،،

یا اوروں کی چبھتی نظروں کی برچھی تھی ،،،

یا شاید پھر دوبارہ وہی پر لطف کھیل کھیلنے کو ،،،

اپنی ساحرانہ گرفت ڈھیلی کر دی،،اور  اپنی کشش کو واپس کھینچ لیا ان آنکھوں نے  ۔۔

 مگر میرے وجود ،دل کو دماغ بھی ساتھ کھینچ  لیا ان  سحر طراز آنکھوں نے ،،اپنے اندر ،،

جیسے کہ رہی ہوں باہر کی دنیا میں تمھارا اب کوئی کام نھی ،،

میں خاموشی کے ساتھ بے اختیار پوری رضامندی سے ان ساحر آنکھوں میں  ایک لہر کی طرح جذب ہو گیا ۔۔۔

لیکن  یقین کریں اس وقت مجھے قطعاً یہ پتا نھی چلا تھا کہ وہ ساحر آنکھیں میرا ، اندر لوٹ کر لے گئی ہیں،، میرے پاس فقط بدن کا ظاہری پنجرہ چھوڑ گئی ہیں ،،


اس بعد کی کہانی مختصر ہے ۔۔

اس جیسا وہ لمحہ دوبارہ نا ملا ۔۔نا مجھے اس لمحے کہ دوبارہ یاد آئی نا طلب ہوئی،، 

ضیاء  الحق دور کے  اس مکتب سکیم سکول میں اور کتنے دن پڑھا یہ بھی پورا یاد نھی  مجھے ،،تھے شاید کچھ دن یا ماہ ،،اس کے بعد 

والد محترم نے جگہ تبدیل کی گھر ملتان بنا لیا سکول بدل گیا ،میں بھی  بھول گیا وہ ، سحر ناک آنکھیں،،

نئی زندگی شروع ہوئی،،  شادی ہوگئی زندگی ایک متعین راستے پر چل نکلی ،، میں پھر کبھی ان آنکھوں کو نھی دیکھ سکا ،،آج تک ،،

مگر پھر ایک عجیب معاملہ پیش آیا میرے ساتھ

شادی کے چند سالوں بعد ،

جب میں عورت ذات  کو ایک طرح سے کھوجنا شروع ہوا ،، 

جیسے کچھ تلاش ہو مجھے کسی کھوئی ہوئی قیمتی شے کی ،، وہ بھی صرف عورت سے ،، میں صرف آنکھیں دیکھتا  عورت کی یا ان آنکھوں میں کوئی جانی پہچانی مگر بھولی ہوئی ،،کشش ،،دھیمی مسکراہٹ  تلاش کرتا ،،رہا لگا تار  ،


ایک دن  اچانک بچپن کو یاد کر رہا تھا ،،کچھ پرانی چیزیں دیکھ کر ،،  

ہلکا سا ایک جھماکا ہوا میرے تصور میں اور وہی ،،گہری پر اسرار ،چمکدار تیز  آنکھیں اپنی پوری حشر سامانی،،، کشش ،، سحر کے ساتھ ،، میرے خیال کی پردہ سکرین پر چھا گئیں ،،،

 میں نے سر جھٹکا آنکھوں کو مسلا ۔۔

مگر کچھ فرق نھی ہوا،،

 الٹا منظر واضح ہوتا گیا ،،

 جس میں نمایاں وہی چمکیلی ۔۔سیاہ بڑی آنکھیں تھیں ،،یا اس کے خفیف سا کانپتے ہوئے ہونٹوں کی دھیمی سی مسکان ،،

باقی آس پاس کا ماحول بلکل دھندلہ سا نظر آیا ،،

 خود مجھے اپنا وجود تک نھی دکھائی دیا  اس منظر میں سوا اپنی نظر کے احساس کے ،،

اب حال یہ ہے کہ میں  ان آنکھوں کو ہر وقت سامنے محسوس کرتا ہوں ،،

   أن آنکھوں کے دیکھنے کی  خوبصورتی کو محسوس کرتا ہوں ،،

 سکون ، اپنائت ،، اور محبت ،،کی پر کیف  لہر کو  محسوس کرتا ہوں اپنے اندر ،، جی چاہتا ہے یہ منظر ٹھہر جائے میرے تصور کی سکرین پر میں اس کو دیکھتا رہوں ،،

مگر وہ اچانک  اوجھل ہو جاتی ہیں  ،،

پھر اچانک ہی سوتے ۔۔وقت ۔۔جاگتے وقت ۔۔کھاتے پیتے ،،یعنی کسی وقت بھی  ،،

وہی آنکھیں اٹھلا کر میرے سامنے آ جاتی ہیں ،

ہنستی ہیں ،، کبھی دھیما سا کھلکھلاتی ہیں ۔۔

  ہاں قہقہہ نھی لگاتیں  پتا نھی کیوں؟

کچھ شرارت پر آمادہ ہوں تو ،،

بہت چمکیلی ہو جاتی ہیں ،،

اور بوسے لیتی ہیں میری آنکھوں کے ،،

ورنہ بس سامنے رہتی ہیں مسکراتی ہوئیں،،

عجب بات ہے وہ آنکھیں کبھی غمگین نظر نھی آئیں مجھے ،،

نا غمگین کرتی ہیں مجھے ،،، بس وہی الوہی سی مسکراہٹ ہوتی ہے ان آنکھوں میں ،،جو پہلی نظر میں تھی ان میں ،،،💖

وہ آنکھیں میری آنکھوں کی ہم عمر ہیں ،

جہاں وہ رہتی تھیں گھر تھا ان کا، وہ جگہ  اب  بھی قریب ہے  آدھے گھنٹے کا سفر ہے ،،میرے  موجودہ گھر سے ،،

 مین روڈ پر ،آتے جاتے ان کے گھر کے بلکل قریب سے گزرتا ہوں ،، اس کے گھر کا راستہ دیکھتا ہوں ،گھر کے باہر والے درخت دیکھتا ہوں ،چھوٹی سی نہر ہے جو ساتھ ،وہ بھی ویسی ہے ،اس کے گھر کی تعمیرات کچھ بدلی ہیں بس ،باقی ماحول ویسا ہے بہت تھوڑے فرق کے ساتھ ،

 ،، ہم دونوں میں ذات برادری کا فرق ہے مگر ان آنکھوں کا دیکھنا مشکل نھی ہے  میرے لئے ۔۔مگر جانے کیوں میں دوبارہ ان آنکھوں کے روبرو نہیں جانا چاہتا   ،،کہ اب وہ آنکھیں شاید ویسی نا ہوں ،،

وہ دھیمی سی مسکان ،، 

پاکیزگی، چمک ،، سیاہی ،،سفیدی ،،گہرائی وسعت ،،

میرے لئے اپنائیت ،

 ،خزاں رسیدہ نا  ہو گئی ہو ،،

کسی اور کی سہاگن بننے پر ،،

کہ آخر وہ ایک عورت ہے جسے پرایا بھی  تو ہونا تھا ایک دن 

😔

مگر اب ان آنکھوں  کو ایک بار دیکھنے کی  حسرت  بہت بڑھ گئی ہے ،، جی چاہتا ہے زندگی میں ایک بار تو دیکھ آؤں ان کو ۔۔

پھر ایک انجانے ڈر سے دعا کرتا ہوں خدا کرے زندہ ہو خوشحال ہو جہاں بھی ہو ،،کتنا عجیب رشتہ بنایا آنکھوں کے راستے دل نے ،حیران تو اس پر بھی ہوں ،مگر پھر چہار سو دیکھوں ،تو پوری دنیا ہی حیرانی کا گھر لگتی ہے ،،

 

فیاض  بخآری