میرا تجربہ ہے مشاہدہ ہے آنکھوں دیکھا کہ ۔خواتین سے زیادتی ریپ کے کیسوں میں ۔سبھی تو نہیں اکثر
مدعی ،،کوشش کرتے ہیں کہ لڑکی کی عمر کم لکھوائیں ایف آئی آر میں ،،
تاکہ ملزم پارٹی پر دگنا دباؤ ڈال سکیں ساتھ عوامی ہمدردی بھی مل جاتی ہے ۔۔
دیہات کے علاقے میں 12 سے13 سالہ لڑکیوں کی شادی اب تک عام ہو رہی ہے بنا شناختی کارڈ کے ۔نکاح کا اندراج بھی ہو رہا ہے ،،
ابھی کچھ دن پہلے ایک نکاح کی تقریب میں گیا ۔قریب کے دیہی رشتے داروں کے گھر ۔وہاں نکاح خواں غیر سید تھا ،تو ایجاب و قبول کے لئے مسئلہ پیدا ہوا کہ پردہ دار گھر میں کیسے لے جائیں اس کو تو سب نے مجھے وکیل بنا دیا کہ آپ جائیں اور لڑکی کو ایجاب و قبول کروائیں اور تاکید سے کہا سب کچھ مروج طریقے سے کرنا اور دستخط یا نشان انگوٹھا بھی درست جگہ پرہوں ،
اب میں ٹھہرا رسم و رواج سے ہٹ کر چلنے والا مویش ،
جاتے ہی اس کو اتنا کہا بیٹی کیا آپکا شناختی کارڈ ہے (کم سن جو دکھ رہی تھی) ،
وہ کیا بولتی دوسری خواتین بولیں ابھی نہیں بنا کارڈ ،
تب میں نے لڑکی سے کہا اچھا آپ کو سمجھ ہے کہ آپ کا نکاح کیا جا رہا ہے فلاں سے جو فلاں کا بیٹا ہے ،اور ان لوگوں کا پروگرام ہے کہ رخصتی بعد میں ہو گی ،،اور آپ کو یہ لوگ اتنی زمین دیں گے اور باقی چیزیں،،
لڑکی نے سر ہلا دیا ،میں نے کہا نہیں ایسے نہیں منہ سے کھل کر بتائیں آپ اور اگر آپ کو کچھ مسئلہ ہے تو بتائیں مجھے ،،میں واپس چلا جاتا ہوں ابھی ۔۔
ساتھ کے دوسرے مردوں نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا اور کہا ۔۔
تساں کلمہ پڑھاؤ ت ایمان دیاں شرطاں پڑھاؤ ۔،
سین (دستخط )کراؤ ت باہر جلو ،،ملاں ت باقی لوگ تانگھ ایچ بیٹھن ،،
میں نے کہا ،،بھراوو ۔
میں ت بس ایہو شرط پوری کریساں جو چھوہر دل نال راضی ہووے ت ایکوں سارے گھاٹے منافعے دا پتا ہووے پورا جو میڈے نال کیا تھیندا پے ،،ت میں کیڑھا معاہدہ کریندی پئی آں ،،ت اے بالغ وی ہووے ،،
سارے رشتے مجھے ٹہوکے دینے لگے اور کہنے لگے ،،ڈو چار کتاباں فالتو پڑھ کے بندے ادھےپاگل تھی وینن ،،عقل کولوں پیدل تھی وینن ،،جینویں جناب ہن 🤓 بھلا زنانیاں کولوں کون پچھدے ایہو جیاں چیزاں،،😏
میں سکون نال ولدا ڈتا ۔۔
میں ادھا نیں پورا پاگل آں ۔۔
جے تئیں چھوہر پوری طرح کُھل کے میکوں گواہی نا ڈیوے میں ت سین نیں کرویندا ۔۔نا ایجاب و قبول کرویساں ۔۔
آخر چھوہر ت اوندے رشتے داراں ڈٹھا جو کم وگڑدا پے ،،
چھوہر بولی ۔
چاچا میکوں سب پتا اے ۔تساں بے فکر تھیوو ۔۔نال اوندی بھینڑ وی گواہی ڈینوڑ پے گئی ،،بیاں تریمتاں وی کاں کاں کرن پے گیاں ،،جو تواکوں پتا ت ہے اے مویا پٹھے دماغ دا ہے ،،نوی گاہل کڈھیسی بیٹھا جیں تک ایکوں تسلی کینا تھیسی ،،
جڈاں ہر پاسوں کاں کاں شروع تھئی ت میں چھوہر کوں آکھیا اچھا ٹھیک اے سین کر ایتھاں ۔۔آکھے چاچا میں۔نوٹھا (انگوٹھا)لیساں ۔۔
میں نوٹھا لوا کے رجسٹر بند کر کے جڈاں ٹرن لگیا ت سارے بولے ۔۔تساں
ایمان دیاں شرطاں وغیرہ ت پچھیاں کینی ۔۔
چنگا ملاں بنڑیں ۔۔
میں ولا بہھ کے آکھیم میکوں اے ڈسو ۔اے چھوہر کوئی غیر مسلم اے ؟ اکھے ،،،کوئنا ،،
میں آکھیا ۔ایکوں کلمہ کینی آندا ،
اکھے ۔۔آندے ۔۔
میں آکھیا ۔نمازاں کینی پڑھدی ۔۔بولے پڑھدی اے ۔۔
میں آکھیا
ول میں کیوں مفت دوبارا ایکوں شرمندہ کراں مسلمانی دا رسمی اقرار کرا کے ۔
میں صرف ایہو ڈیکھنڑاں ہا جو چھوہر راضی اے خوش اے ت عاقل بالغ اے ،ت ایندے نال زور ڈڈھپ نی پیا تھیندا ،چھوہر میکوں کم عمر لگدی ہائی پر اور خود جڈاں اقرار کیتس جو میکوں سب پتا اے ول میں بیا کیا اقرار کراواں ۔۔
اللہ اللہ خیر سلا ۔۔سئیں جانڑن ت بلائیں جانڑن ۔۔
ایہو چیز ولا ولا ڈٹھم ۔
جو لوگ جڈاں نکاح ایچ ڈنڈی مار گھنن دھیاں دی عمر گھٹ وی ہووے ت
شناختی کارڈ وی ضروری ہووے زمین دے انتقال واسطے تاں اوندی عمر ودھ لکھوا کے ۔نکاح کر ڈینن،
ت ول اے ریپ دے کیساں ویچ دا ویسے وی انتقام ت ضد دی روش مسئلہ ہوندے ۔مارکہ چنگی بھلی صحت مند جوان بالغ چھوہر کوں کم سن ت نابالغ لکھوینن ۔پرچے ویچ ۔۔
بیا زاویہ اے وی ہوندے جو سارے ت نیں کجھ شاید چنگے بھلے ریپ دے کیس جھوٹے ہونن دیہات ایچ ۔صرف برادری بیس دی خاندانی دشمنی دی پچھوں ہک بے ت کوڑا الزام لا کے کیس کر ڈینن ۔۔
ت آج کل دے صحافی ۔چٹوریاں خبراں کیتے حقائق دی بجائے ۔
خبر کوں سنسنی خیز بنڑوانڑ کیتے خود صلاح ڈینن نال اپڑیں طرفوں وی کجھ عمر گھٹ کر ڈینن۔ت سٹوری کوں وی مسالہ لا کے مزید سنسنی خیز بنڑا ڈینن ت اے ظاہر کرینن سٹوری ایچ جو بہوں وڈا ظلم تھی گے ،،
اگوں مدعی پارٹی دا وکیل وی ایہو صلاح ڈیندے جو چھوہر کوں نا بالغ لکھواؤ ۔ت موقع وارادت ایہو جیہاں لکھواؤ جیندے ویچ چھوہر دا قصور اصلوں نا نظرے ،،
کیس ترکڑا بنڑسی ت جج متائثر تھیسی ۔۔
ہک بیا زاویہ وی ڈٹھم
ریپ دے کجھ کیس باہمی رضامندی نال سیکس دے ہونن ۔۔
چھوہر یا عورت خود راضی خوشی دوستی یا عشق محبت دے چکر ایچ یا مرد کوں لٹنڑ پٹنڑ کیتے سب کجھ راضی خوشی کریندی اے
جڈاں کہیں گاہل تو وگڑ ونجے یار نال ۔۔
ول ریپ دا الزام لا کے پرچہ کٹوایا چا ،،
دیہات میں مشہور ہے کہ ،،زنانی دے کیس کولوں خدا بچاوے ،،
دوسری بات یہ مشہور ہے کہ
جیندے خلاف زنانی بولیسی اوہا ٹنگیا ویسی ،،
مطلب او رل گیا ۔۔
اس وجہ سے ریپ کے کیسز ہوں
پسند کی شادی ہو ۔ہر دو جگہ پر دونوں پارٹیوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح لڑکی ۔۔عورت کو ہاتھ میں رکھنا ہے اور مرضی کا بیان دلوانا ہے ،،
اس کے لئے ہر طریقہ آزمایا جاتا ہے ۔
اسی بات کے تناظر میں
کچھ منہ پھٹ عورتوں کو صاف کہتے سنا ہے ایک نہیں کئی بار کہ ۔۔ہنڑیں کپڑے پاڑ کے تھانڑیں پج ویساں ،
یعنی عورت کے ذہن میں بھی یہی بات بٹھا دی گئی ہے کہ ۔وہ ریپ کا الزام لگا کر با آسانی کسی بھی مرد،کے خاندان کو تباہ و برباد کر سکتی ہے ۔۔
اسکو خود بھی دیکھا ہے میری ایک ہمسائی نے کچھ ہلکے سے زنانے جھگڑے کے بعد ۔۔جھگڑے والی عورت کے مردوں کو سر عام دھمکی دی کہ ۔۔۔
ابھی کپڑے پھاڑ کے تھانے چلی گئی تو تم لوگ میرے پاؤں پکڑو گے ،،😏
مرد بیچارے سہم کر اندر چھپ کر بیٹھے رہے کہ ہاں ایسا کر بھی سکتی ہے کہ ایسا تواتر سے ہوتا آرہا ہے پہلے سے ہی ،،
وہ عورت سر عام دھمکیاں دے کر چلی گئی کسی کو جرات نا ہوئی کہ پوچھتا کچھ ،،
ریپ کے کیسز میں
پولیس کو رشوت دینا اور مرضی کی دفعات شامل کروانا ،
جس کو باقاعدہ محرر یا تھانیدار خود بتاتا ہے کہ موقع یوں لکھوائیں ،،بیان یوں لکھوائیں اور کونسی بات کرنی ہے جج کے سامنے ۔۔میڈیکل سرٹیفکیٹ کے لئے پیسہ خرچ کرنا عام روٹین ہے ۔۔اور مل بھی جاتا ہے سب کو پتا ہے اس کا ۔
گواہوں کا بندوبست پولیس کا ٹاؤٹ کرتا ہے یا وکیل کا منشی کرتا ہے ،اور گواہ بھی مرضی کا بیان دیتے ہیں چند سو روپے لے کر
جہاں تک ہو سکے ۔حقائق کو بدلنے کی پوری پوری کوشش کی جاتی ہے اپنے حق میں ،،جس میں محلے کے ٹاؤٹ سے لے کر جج تک سب عورت والی پارٹی کا ساتھ دیتے ہیں
اگر ملزم پارٹی کچھ کھاتے پیتے گھر کا ہو اور
محلے کے دو چار منشی ٹائپ ٹاؤٹ اس کے خلاف ہوں تو پھر اس سوچ کے ساتھ کیس کو بڑھایا جاتا ہے کہ ،
کہ مال بنے گا
باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت ۔لڑکی والوں سے حصہ طے کیا جاتا ہے کہ ہم آپ لوگوں کا کیس لڑنے میں ہر طرح سے مدد کریں گے ۔
دباؤ ڈالیں گے پورا ۔۔
اور جب راضی نامہ پر بات ہوگی تو ہمارے بنا راضی نامہ نہیں کرنا ۔۔
پھر وہی ٹاؤٹ نما دلال ۔ثالثی کرانے کو دونوں پارٹیوں کے مابین معاملہ طے کرواتا ہے ۔۔
اور اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کر کے الگ ہو جاتا ہے ۔۔
اور یہی ان کا روزگار ہے ۔ایسے لوگ ہر زمانے میں پائے جاتے تھے اور ہیں ۔
اس ساری بات کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ
میں ریپ کے سب کیسز کو جھوٹا کہتا ہوں یا ریپ کے حق میں ہوں ،،
ریپ کو انتہا کا گھناؤنا فعل سمجھتا ہوں ۔اور بد قسمتی سے پاکستان میں حقیقی دردناک ریپ کے کیسز کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جو اتنے افسوسناک تھے کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔۔
میرا نکتہ نظر یہاں اس بات پر کہ
ریپ کیسز میں اچھی بھلی تعداد جھوٹے یا دشمنی میں بنائے گئے کیسوں کی ہوتی ہے
اس تعداد کے بارے میں حقیقی اعداد و شمار تو معلوم نہیں ہیں مگر مشاہدہ ہے کہ بڑی عمر کی عورتوں کے کیسز میں کافی تعداد ایسے ہی کیسوں کی ہوتی ہے جن میں الزام زیادہ اور حقائق کم ہوتے ہیں ،،
ایک ایسا کیس بھی دیکھا جس میں
ایک پیسے لے کر آئی عورت نے سب کچھ مرضی سے کیا ۔
پھر بعد میں کسی ان بن پر ریپ کا کیس کر دیا حالانکہ وہ عورت پورے علاقے میں مشہور و معروف تھی بطور طوائف ۔
حیرت انگیز طور پر اس کا ساتھ کچھ ایسے لوگوں نے بھی دیا جو اسمبلی لیول کے لیڈر تھے ۔فقط ملزم پارٹی سے عناد کی وجہ سے ،،خود گواہ ہوں اس کا
ریپ کے جھوٹے کیسز سے ایک نقصان ان خواتین کو ہوتا ہے جن کے ساتھ حقیقت میں ریپ ہوجاتا ہے ۔
اب وہ یا تو خاموش ہو کر بیٹھ جاتی ہیں گھر والوں کو بھی نہیں بتاتی یا پھر ہمت کریں بھی تو۔
انصاف کا نام نہاد سسٹم ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتا ہے ۔مشکوک گردان کر وکلاء بھری عدالت میں ایسے ایسے سوالات کرتے ہیں کہ متاثرہ جو دکھ سے پہلے ادھ مری ہوتی شرم سے کیس کی پیروی ہی چھوڑ جاتی ہے
جس کا مکمل فائدہ مجرم پارٹی اٹھاتی ہے ۔
میرے مشاہدے کے مطابق حقیقی ریپ کے بہت کم کیس عدالتوں تک پہنچتے ہیں ۔
شریف گھرانے کے لوگ جتنا ہو سکے اس ذلت آمیز بدنامی کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں ۔کہیں بھی نا کوئی رپورٹ کرتے ہیں اور نا ہی کہیں انصاف کی امید میں جاتے ہیں ۔
بس اپنا دکھ اندر رکھ کر جیتے ہیں ۔۔اور ایسے لوگوں کی تعداد کثیر یے،قلیل نہیں
کہنے کو اور بہت کچھ ہے مگر صاحب نظر لوگوں سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے سب کو سب پتا ہے مگر نظام انصاف کو درست کرنے کی کوشش کرے بھی تو کون کرے ۔۔
پاکستان میں ریپ کے کیسز کے اعداد و شمار
عام اعداد و شمار (2022):
پاکستان میں ہر دن تقریباً 11 خواتین ریپ کا شکار ہوتی ہیں۔
2022 میں، 4,139 ریپ کے معاملات رپورٹ کیے گئے۔
ان میں سے صرف 2% کیسز میں مجرمین کو سزا دی گئی۔
بچوں کے خلاف ریپ:
بچوں کے خلاف ریپ کے معاملات میں 80% متاثرین 12 سے 18 سال کی عمر کے درمیان ہیں۔
2022 میں، 2,500 سے زائد بچوں کے خلاف ریپ کے معاملات رپورٹ کیے گئے۔
غیررپورٹ کیے گئے کیسز:
کئی تحقیقات کے مطابق، 90% ریپ کے معاملات غیررپورٹ رہتے ہیں۔
یہ اس لیے ہے کہ خاندان بدنامی سے بچنا چاہتے ہیں یا پھر مجرمین کے خاندان کے ساتھ معاہدہ کر لیتے ہیں۔
جمیوریاں اور دیہاتی علاقوں میں حالات:
دیہاتی علاقوں میں بچوں کی شادیاں اور ریپ کے معاملات کا انتہائی اعلی درجہ دیکھا گیا ہے۔
2022 میں، 70% ریپ کے معاملات دیہاتی علاقوں سے رپورٹ کیے گئے۔
نتیجہ
ریپ کے معاملات میں سماجی، ثقافتی اور قانونی نقصانات کا ایک پیچیدہ ماڈل دیکھا جا سکتا ہے۔ حقیقی ریپ کے معاملات میں بھی نظامِ انصاف کی کمزوریوں کی وجہ سے بہت سے لوگ انصاف حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ دوسری طرف، جھوٹے کیسز بھی نظام کو بے اعتبار بناتے ہیں۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے، ہمیں ضرورت ہے:
تعلیمی مہمیں: خواتین کو حقوق کی آگاہی دینا۔
صارم قوانین: مجرمین کے خلاف سخت کارروائی۔
سماجی تبدیلی: بچوں کی شادیوں کو ختم کرنا۔
عدالتی اصلاحات: متاثرین کو محفوظ ماحول فراہم کرنا۔
آخر میں، یہ نظامِ انصاف کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقیقت کو سامنے لائے اور مجرمین کو سزا دے۔
نوٹ: اعداد و شمار Human Rights Commission of Pakistan (HRCP) اور Sahil NGO کی رپورٹس سے حاصل کیے گئے ہیں۔
🙏فیاض بخاری