کئی روایتوں میں آیا ہے کہ جہاں حافظ کو ان کے اشعار کی وجہ سے مذہبی حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا تھا وہیں انھیں ان کے مشہور ترین اشعار میں سے ایک کے لیے بادشاہ وقت امیر تیمور کے سامنے حاضر ہونا پڑا۔
ان کا یہ شعر شاید آپ نے سنا ہو؟
اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را
یعنی اگر وہ شیرازی ترک میرے دل کو اپنے ہاتھ میں لیتی ہے یعنی میری محبت کو قبول کرتی ہے تو اس کے گال کے کالے تل پر میں سمرقند اور بخارا کو نچھاور کر دوں۔
اس وقت سمرقند سلطنت تیموریہ کا دارالحکومت تھا اور بخارا ایک بہت ہی پھلتا پھولتا شہر تھا جو سلطنت تیمور کے زیر نگیں تھا۔
کے این پنڈت نے ’حافظ شیرازی کی شاعری‘ نامی اپنی کتاب میں درج کیا ہے کہ ’دولت شاہ سمرقندی نے لکھا ہے کہ 795 ہجری میں تیمور نے شیراز کو فتح کر کے شاہ منصور کا خاتمہ کیا اور پھر حافظ کو بلا کر پوچھا کہ میں نے ہزاروں شہروں کو ویران کیا تاکہ اپنی زادگاہ اور اپنے وطن سمرقند و بخارا کو آباد کروں اور تم ایک خال سیاہ کے عوض انھیں بخش دو گے؟‘
اس کے جواب میں حافظ نے کورنش بجا لا کر کہا: ’بادشاہ سلامت انھی بخششوں کا نتیجہ ہے کہ اس حال میں پڑا ہوں۔‘