ڈوکے ❗
میٹھا کچا ڈوکہ چاروں طرف سے خود کو دکھاتا ہے ،بہانے بہانے سے اِدھر اُدھر لڑھکتے ہوئے کھلکھلاتے ہوئے شرماتے ہوئے ،آپ ابھی ایک ڈوکے کو دیکھ رہے ہوں اس کی خوبصورتی میں محو ہوں،
تو اچانک ڈھیر کے اوپر نیچے ، دائیں بائیں سے کوئی اور شوخ ڈوکہ شوخی سے سر اٹھا کے اپنے حسن کی تحسین چاہتا ہے لڑھک کر سامنے آ جاتا ہے نمایاں کر لیتا ہے خود کو ، باظاہر شان بے نیازی سے ،مگر درپردہ چاہے جانے کی اپیل ہوتی ،اس کا انگ انگ کہتا ہے ،مجھے دیکھو ،مجھے چاہو ،میں ان چھوا ہوں ،کنوارہ ہوں ،ابھی غرض کے لتھڑے ہوئے ہاتھ مجھے گندہ نہیں کر پائے ،میں ہر طرح سے پاکیزہ ہوں ،صاف ہوں ،پوتر ہوں۔❣️
![]() |
کچا ڈوکہ کھجور کا |
سب ایک سے الہڑ ،شوخ ،شرارتی ،حسین ،کنوارے۔۔ان چھوئے ،دھلے دھلائے،جاذب نظر ۔
کچا ڈوکا کسی کنواری لڑکی جیسا ہوتا ہے جس کے انگ انگ سے شوخی، شرارت، اور رس ٹپکنے کو ہوتا ہے ،گالوں پر سرخ سی تمازت پھیل رہی ہوتی ہے۔ایک خمار آگیں مدھ بھری ان کہی سرگوشی سی پھیل رہی ہوتی ہے اس کے وجود سے،
جیسے شوخی اور شرارت سے مسکرا رہے ہوں ۔
کبھی غور سے دیکھیں کچے ڈوکے میں ایک تمکنت وقار ۔۔اہک غرور حسن ہوتا ہے بے پروائی ہوتی ہے اس میں ،جیسے ایک ملکہ کی شان ہوتی ہے ۔
اس کی چھاتی کی اٹھان میں عجب تفاخر ہوتا ہے ان چھوئے ہونے کا ،ساری دنیا کو تسخیر کر لینے کا عزم ہوتا ہے،
میرا جی چاہتا ہے میں ایسے کچے ڈوکے کھانے کی بجائے سامنے رکھ لوں جن کا رنگ پیلے کے اوپر گلابی ہو ۔۔لال ہو یا سرمئی ہونے لگا ہو ،
محفوظ کر دوں ان کو ہر نظر سے، اور دیکھتا رہوں دیکھتا رہوں ،
اور جو کبھی کبھی دیکھنے سے بھی جی نا بھرے تو ان کا ایک پیار بھرا بوسہ لوں طویل، ،کبھی آنکھوں پر رکھوں ان کو پھر ہونٹوں سے لگا لوں ،کبھی سینے پر بکھیر دوں ان کو ،
اور ان کے مست نوخیز جسم سے آنے والی مدہوش سی خوشبو کو اپنے روح تک میں اتار لوں ،
سچ پوچھیں تو ایک نوخیز حسین کنواری میں ،اور کچے ڈوکے میں کوئی فرق نہیں دکھتا مجھے ،
ادھ کچے ادھ پکے ڈوکے ❗
ادھیڑ عمر عورت جیسے ہوتے ہیں جس کا سراپا باظاہر مکمل لگتا ہے مگر گردش وقت سے کچھ ڈھلک رہا ہوتا ہے کہیں کہیں سے ،پلکیں کچھ جھکی جھکی سی ہوتی ،کبھی کبھار اچانک اٹھ جاتی کسی چلمن کی طرح وا ہوجاتی ہیں بے باکی سے ۔مگر کچا پکا ڈوکہ
اپنے وجود سے کچھ بے پرواہ ،کچھ ہوشیار سی ہوتی ہے ایسی عورت
جو چاہنے والے کی محبت اور توجہ سے بن سنور کے سامنے کھڑی ہو تو بالائی جسم دمک اٹھتا ہے چمک ایسی کہ آنکھیں خیرہ کرے گو پیلاہٹ نمایاں ہوتی ہے گالوں میں مگر اس وقت کنواریاں بھی دیکھ کے شرمائیں اس کو ۔۔
تب اس کی آنکھیں بھی بولنے لگتے ہیں مگر ان آنکھوں میں بے باکی ہوتی ہے شرماہٹ نھی ہوتی کنواری آنکھوں جیسی۔
جیسے کہ رہی ہوں کہ آؤ جسے، ہمیشہ پار پہنچنے کا غرور ہو ہم اسے راہ سے اچک کر منزل سے بیگانہ کر سکتی ہیں مدہوش کر کے ،
زاویہ نگاہ بھی بدل جاتا ہے ، ایک دم شعلوں کی سی لپک بھی آجاتی ہے آنکھوں میں،
جیسے کسی بجھتی ہوئی آگ میں خشک لکڑیاں پھینک دی جائیں تو آگ پھر سے بھڑک اٹھتی ہے اس لپک اور بھڑک میں اداسی بھی ہوتی ہے فناء کے خوف کی ،مگر چھاتی کی اٹھان میں کاملیت کا غرور سہارہ دے دیتا ہے ڈھلتی جوانی کے خوف کو۔
گال بھی تمتا اٹھتے ہیں پلکیں بھی کسی میٹھی یاد سے جھک جاتی ہیں
ناک پر ہلکا سا پسینہ بھی آ جاتا ہے جوانی کی تپش کے دنوں والا
مگر افسوس چھاتی کے نیچے نشان زدہ پیٹ ادھر ادھر لڑھکا ہوا
جس پر لکیریں ،کوسیں، دھبے ، اور پلپلا پن،
اوپر والی ساری دلکشی کو دھیما کر دیتے ہیں ،
بالائی جسم کی ساری دلکشی اور جاذبیت مدھم کر دیتی ہیں ،نچلے جسم کی زوال پذیر بناوٹیں ۔
لیکن عجیب بات ہے اب بھی اسکا اوپری بالائی دھڑ آدھا وجود ڈنگ ڈوکے کی طرح ضد کرتا ہے کہ مجھے ابھی کنوارہ ، ان چھوا مانا جائے ۔جیسے ڈنگ ڈوکہ آدھا کچا اور آدھا پکا ہوا ،اپنے وجود کے دونوں حصوں کو دکھا کر
بار بار کہتا ہے دیکھ لو میں نے ابھی تک اپنی حد تک اپنے وجود کو سنبھالا ہوا ہے ،
مجھے جسم کے نچلے آدھے حصے سے بھلے الگ کر دو منظور ہے مجھے ،پھر میری کاملیت کو دیکھو ،کہ کتنا مکمل ہوں میں ،کتنی رس ،مٹھاس بھر گئی ہے مجھ میں ،💞
غور سے دیکھیں آپ ادھ پکے ڈوکے اور میٹھے کچے ڈوکے میں یہ صفات ہوں گی ،شرط صرف تخیل کی مشاہداتی پرواز میں حساسیت ہے ،
📝فیاض بخآری