میں نے سکھ کی مصنوعی چادر اوڑھ کر بھی دیکھ لی ہے ،،
کچھ دیر تو مطمئن رہا میں بھی
مگر پھر میرے اندر کے دکھوں نے ،،
سکھ کی مصنوعی چادر سےجھانکنا شروع کر دیا ۔
پہلے پہل تو میں ان کو اپنا دکھ سمجھتا رہا ۔لیکن جب غور سے دیکھا تو ،
بہت سارے دکھ آس پاس کے تھے ۔۔کچھ دکھ تو
نا حق مارے جانے والوں کے تھے ۔۔
جن کی ماؤں کے نوحے ایسی آہ زاری کر رہے تھے کہ
مصنوعی سکھ کی چادر ہر طرف سے پھٹ رہی تھی
کچھ غربت کی دلدل میں پھنسے غریبوں کے تھے ،
جن کے ہاتھوں کے چھالوں کا لہو بچی کچھی چادر کو لال کر رہا تھا ،،
کچھ دکھ ان معصوم بچوں کے تھے ،
جن کو پیٹ بھر غذا نہیں مل رہی تھی ،،
اور وہ بلک بلک کر ماں کی
سوکھی چھاتیوں سے چمٹ چمٹ جاتے تھے ،،
طرح طرح کے عجیب و غریب شکلوں کےدکھ تھے ،،
میں حیران سا ان دکھوں کو دیکھ رہا تھا ،،
جو میرے تو نہیں تھے لیکن مجھے اپنے لگ رہے تھے ،،
ان دکھوں کی چیخ پکار ،درد،کراہوں سے،مجھے ایسی تکلیف ہوئی کہ ،
میں نے سکھ کی مصنوعی لیرو لیر چادر کو اتار کر پھینک دیا ۔۔
سارے دکھ ننگے ہوگئے ننگ دھڑنگ دکھ میرے چاروں طرف کلبلا رہے تھے ،کسمسا رہے تھے ،،
باقی لوگ آس پاس سے گزر رہے تھے
مگر کسی کو بھی ننگ دھڑنگ دکھ دکھائی نہیں دے رہے تھے ،،،
کوئی بھی خاص متوجہ نہیں تھا ،،مجھے بڑی حیرانی ہوئی
سوچا کہ ان کو یہ ،،عیاں ننگے دکھ کیوں نہیں نظر آ رہے ؟؟
جب غور کیا تو یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ
جو لوگ ان ، ننگ دھڑنگ دکھوں کونہیں دیکھ رہے تھے ،،
یا نظر چرا رہے تھے ،
در اصل انہوں نے بھی میری طرح مصنوعی سکھ کی چادر اوڑھ رکھی تھی ،،
فرق یہ تھا کہ میں نے اتار پھینکی تھی گھبرا کر ،،
مگر اکثر لوگوں نے اب بھی اوڑھی ہوئی تھی جیسے تیسے 🙄😔

