فقہ اور تصوف
قران اور حدیث کے احکام پر غور کرکے بعض بزرگان دین نے عام لوگوں کی آسانی کے لیے مفصل قوانین مرتب کردیے ہیں جن کو “فقہ” کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
فقہ اور تصوف اسلام کے دو اہم شعبے ہیں، جو مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
فقہ:
فقہ اسلامی قانون کا علم ہے، جو قرآن، حدیث، اجماع (علماء کا اتفاق رائے) اور قیاس (منطقی استدلال) جیسے مصادر سے اخذ کیا جاتا ہے۔ فقہ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی کو شریعت کے مطابق گزار سکیں۔ فقہ میں عبادات (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج)، معاملات (تجارت، نکاح، طلاق)، اور دیگر معاشرتی و قانونی مسائل کا احاطہ کیا جاتا ہے۔
تصوف:
تصوف اسلام کا روحانی اور باطنی پہلو ہے، جو تزکیہ نفس (نفس کی پاکیزگی) اور اللہ سے قربت حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔ تصوف میں مراقبہ، ذکر، اور دیگر روحانی مشقوں کے ذریعے دل کو پاک کرنے اور اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ صوفیاء کا ماننا ہے کہ ظاہری عبادات کے ساتھ ساتھ باطنی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔
فرق:
- فقہ ظاہری اعمال اور قانونی پہلوؤں پر توجہ دیتا ہے۔
- تصوف باطنی پاکیزگی اور روحانی ترقی پر مرکوز ہے۔
دونوں اپنے اپنے دائرے میں اہم ہیں اور ایک مکمل اسلامی
زندگی کے لیے دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
چونکہ ہر شخص قرآن کی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتا، نہ ہر شخص کے پاس حدیث کاایسا علم ہے کہ وہ خود شریعت کے احکام معلوم کرسکے۔ اس لیے بزرگان دین نے برسوں کی محنت اور غور و تحقیق کے بعد “فقہ” کو مرتب کیا ہے ان کے بار احسان سے دنیا کے مسلمان کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ یہ انہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے کہ آج کروڑوں مسلمان بغیر کسی زحمت کے شریعت کی پیروی کررہے ہیں ۔ اور کسی کو خدا اور رسول کے احکام معلوم کرنے میں دقت نہیں پیش آتی۔
البتہ یہ ظاہر ہے کہ ایک معاملہ میں ایک ہی طریقہ کی پیروی کی جاسکتی ہے، چار مختلف طریقوں کی پیروی نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے اکثر علماء یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان چاروں میں سے کسی ایک کی پیروی کرنی چاہیے، ان کے علماء کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ کسی خاص فقہ کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ علم رکھنے والے آدمی کو براہ راست قرآن اور حدیث سے احکام معلوم کرنے چاہئیں ۔ اور جو لوگ علم نہ رکھتے ہوں انھیں چاہییے کہ جس عالم پر بھی ان کا اطمینان ہو اس کی پیروی کریں ۔یہ لوگ اہلِ حدیث کہلاتے ہیں اور اوپر کے چار گروہوں کی طرح یہ بھی حق پر ہیں ۔
اسلام میں چار آئمہ کرام کے مشہور مذاہب درج ذیل ہیں:
فقہ حنفی:
یہ فقہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 150 ہجری) کے نام سے منسوب ہے۔ یہ فقہ استدلال، قیاس اور رائے پر مبنی ہے اور اسے زیادہ تر جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، ترکی اور بلقان کے علاقوں میں مانا جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں امام ابویوسف، امام محمد اور امام زفر رحمۃ اللہ علیہم شامل ہیں، جنہوں نے اس فقہ کو مزید مرتب کیا۔
فقہ مالکی:
یہ فقہ امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 179 ہجری) کے نام سے منسوب ہے۔ یہ فقہ مدینہ منورہ کے عمل اور روایات پر زیادہ زور دیتی ہے۔ یہ فقہ شمالی افریقہ، مغربی افریقہ اور کچھ عرب ممالک میں رائج ہے۔
فقہ شافعی:
یہ فقہ امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 204 ہجری) کے نام سے منسوب ہے۔ یہ فقہ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس کے درمیان توازن قائم کرتی ہے۔ یہ فقہ مصر، مشرقی افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا (جیسے انڈونیشیا اور ملائیشیا) اور کچھ عرب ممالک میں رائج ہے۔
فقہ حنبلی:
یہ فقہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 241 ہجری) کے نام سے منسوب ہے۔ یہ فقہ قرآن اور حدیث پر زیادہ توجہ دیتی ہے اور قیاس اور رائے کو کم اہمیت دیتی ہے۔ یہ فقہ زیادہ تر سعودی عرب اور کچھ خلیجی ممالک میں رائج ہے۔
یہ چاروں فقہیں اہل سنت والجماعت کے چار بڑے مذاہب ہیں اور ان سب کا بنیادی ماخذ قرآن اور سنت ہے۔ ان میں اختلافات جزوی ہیں اور یہ سب اسلامی شریعت کی تشریح کے مختلف طریقے ہیں۔ تمام مسلمان ان فقہوں کو برحق مانتے ہیں اور ان کے علماء کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
تصوف
فقہ کا تعلق انسان کےظاہری عمل سے ہے، وہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ تم کو جیسا اور جس طرح حکم دیا گیا تھا اس کو تم بجالائے یا نہیں ۔ اگر بجا لائے ہو تو فقہ کو اس سے کچھ بحث نہں کہ تمہارے دل کا کیا حال تھا۔ دل کے حال سے جو چیز بحث کرتی ہے اس کا نام تصوف ہے۔ مثلاً تم نماز پڑھتے ہو اس عبادت میں
فقہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ تم نے ٹھیک سے وضو کیاہے، قبلہ رو کھڑے ہوئے ہو، نماز کے تمام ارکان ادا کیے ہیں ، جو چیزیں نمازمیں پڑھی جاتی ہیں وہ سب پڑھ لی ہیں ، اور جس وقت جتنی رکعتیں مقرر کی گئی ہیں ، ٹھیک اسی وقت اتنی ہی رکعتیں پڑھی ہیں ، جب تم نے یہ سب کردیا تو فقہ کی رو سے تمہاری نماز پوری ہوگئی۔ لیکن
تصوف یہ دیکھتا ہے کہ اس عبادت میں تمہارے دل کا کیا حال رہا۔ تم خدا کی طرف متوجہ ہوئے یا نہیں ؟ تمہارا دل دنیا کے خیالات سے پاک ہوا یا نہیں ؟ تمہارے اندر نماز سے خدا کا خوف اور اس کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین اور صرف اسی کی خوشنودی چاہنے کا جذبہ بھی پیدا ہوا یا نہیں ؟
اس نماز نے تمہاری روح کو کس قدر پاک کیا؟ تمہارے اخلاق کہاں تک درست کیے؟ تم کو س حد تک سچاّ اور پکاّ عملی مسلمان بنادیا ہے؟
یہ تمام باتیں جو نماز کے اصل مقصد سے تعلق رکھتی ہیں جس قدر کمال کے ساتھ حاصل ہوں گی تصوّف کی نظر میں تمہاری نماز اتنی ہی زیادہ کام ہوگی اور ان میں جتنا نقص رہے گا اسی لحاظ سے وہ تمہاری نماز کو ناقص قرار دے گا۔ اسی طرح شریعت کے جتنے احکام ہیں ان سب میں
فقہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ تم کو جو حکم جس صورت میں دیا گیا تھا، اسی صورت میں تم اسے بجالائے یا نہیں ۔
اور تصوّف یہ دیکھتا ہے کہ اس حکم پر عمل کرنے میں تمہارے اندر خلوص اور نیک نیتی اور سچی اطاعت کس قدر تھی۔
اس فرق کو تم ایک مثال سے اچھی طرح سمجھ سکتے ہو۔ جب کوئی شخص تم سے ملتا ہے تو تم اس پر دو حیثیتوں سے نظر ڈالتے ہو، ایک حیثیت تو یہ ہوتی ہے کہ وہ صحیح و تندرست ہے یا نہیں ۔ اندھا، لنگڑا لولا تو نہیں ہے۔ خوبصورت ہے یا بدصورت، اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہے یا میلا کچیلا ہے۔ دوسری حیثیت یہ ہوتی ہےکہ اس کے اخلاق کیسے ہیں ، اس کی عادات و خصائل کا کیا حال ہے، اس عقل، سمجھ بوجھ کیسی ہے، وہ عالم ہے یا جاہل، نیک ہے یابد۔ ان میں سے پہلی نظر گویا فقہ کی ہے اور دوسری نظر گویا تصوّف کی ہے، دوستی کے لیے جب تم کسی شخص کو پسند کرنا چاہو گے تو اس کی شخصیت کے دونوں پہلوؤں کو دیکھوگے، تمہاری خواہش یہ ہوگی کہ اس کے ظاہر بھی اچھا ہو اور باطن بھی اچھا۔ اسی طرح اسلام میں بھی پسندیدہ زندگی وہی ہے جس میں شریعت کے احکام کی پابندی ظاہر کے اعتبار سے بھی صحیح ہو اور باطن کے اعتبار سے بھی۔ جس شخص کی ظاہری اطاعت درست ہے مگر باطن میں اطاعت کی روح نہیں ہے۔ اس کے عمل کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی آدمی خوبصورت ہو مگر مردہ ہو۔ اور جس شخص کے عمل میں تمام باطنی خوبیاں موجود ہوں ، مگر ظاہری اطاعت درست نہ ہو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص بہت شریف اور نیک ہو مگر بدصورت اور اپاہج ہو۔
اس مثال سے تم کو فقہ اور تصوف کا باہمی تعلق بھی معلوم ہوگیا ہوگا۔ مگر افسوس ہے کہ بعد کے زمانوں میں علم اور اخلاق کے زوال سے جہاں اور بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں ، تصوف کے پاک چشمے کو بھی گندہ کردیا گیا۔ لوگوں نے طرح طرح کے غیر اسلامی فلسفے گمراہ قوموں سے سیکھے اور ان کو تصوف کے نام سے اسلام میں داخل کردیا۔ عجیب عجیب قسم کے عقیدوں اور طریقوں پر تصوف کا نام چسپاں کیا۔ جن کی کوئی اصل قرآن اور حدیث میں نہیں ہے۔ پھر اس قسم کے لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو شریعت کی پابندی سے بھی آزاد کرلیا۔وہ کہتے ہیں کہ تصوف کو شریعت سے کوئی واسطہ نہیں ، یہ کوچہ ہی دوسرا ہے۔ صوفی کو قانون اور قاعدے کی پابندی سے کیا سروکار۔ اس قسم کی باتیں اکثر جاہل صوفیوں سے سننے میں آتی ہیں ، مگر دراصل یہ بالکل غلط ہیں ۔
اسلام میں کسی ایسے تصوف کی گنجائش نہیں ہے جو شریعت کے احکام سے بے تعلق ہو۔
کسی صوفی کو یہ حق نہیں کہ وہ نماز اور روزے اور حج اور زکوٰۃکی پابندی سے آزاد ہوجائے۔
کوئی صوفی ان قوانین کے خلاف عمل کرنے کا حق نہیں رکھتا جو معاشرت اور معیشت اور اخلاق اور معاملات اور حقوق و فرائض اور حدود ِ حلال و حرام کے متعلق خدا اور رسول نے بتائے ہیں ۔کوئی ایسا شخص جو رسول اللہ ﷺ کی صحیح پیروی نہ کرتا ہو اور آپ کے مقرر کیے ہوئے طریقہ کا پابند نہ ہو مسلمان صوفی کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے۔ تصوف تو درحقیقت خدا اور رسول کی سچی محبت بلکہ عشق کا نام ہے۔ اور عشق کا تقاضا یہ ہے کہ خدا کے احکام اور اس کے رسول کی پیروی سے بال برابر انحراف نہ کیا جائے۔ پس اسلامی
تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ شریعت کے احکام کو انتہائی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ بجالانے اور اطاعت میں خدا کی محبت اور اس کے خوف کی روح بھردینے ہی کا نام تصوف ہے۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کتاب ،دینیات،، سے بھی کچھ مدد لی گئی ہے اس مضمون کی تیاری میں ،