خیال کی قوت

Fayyaz Bukhari

خیال اور اس کی طاقت ۔

جب ہم نا امید ہوتے ہیں مایوس ہوتے ،یا پھر غمگین ہوتے ہیں تو ہمارے خیالات  بصورت لہر ،ویوز ،،آس پاس کے ماحول کو بھی متاثر کرتی ہیں،
 ہم جہاں جہاں سے گزریں گے ۔اس ماحول کو بھی اپنے خیالات کی طاقت کے حساب  سے ویسا محسوس کروائیں گے ،جو ہم  محسوس کر رہے ہیں ،

اس کی ایک سادہ مثال ہے ،،
جب کبھی ہم غمگین ہو کر کسی پرفضا مقام پر جائیں تو ،
خوبصورت نظارہ بھی ہمیں پھیکا اور بے کیف لگتا ہے ۔
اچھا بھلا خوبصورت،مقام اجاڑ سا لگتا ہے ۔جیسے ہمارے ساتھ وہ بھی رنجیدہ ہے ۔ویران ویران سا ہے ،
درد و الم کی کیفیت میں ہر چیز ،روتی بسورتی نظر آئے گی ہم کو ،
حالانکہ بلکل اسی وقت ۔
کوئی دوسرا فرد اسی مقام پر خوشی اور اطمینان قلب کی گہری کیفیت کے تحت ۔
ہر شے کو رنگین خوبصورت اور پر بہار دیکھ رہا ہوتا ہے ،چاروں طرف سبزہ اور ہریالی دیکھ کر سرشاری محسوس کر رہا ہوتا ہے خوشی سے ،
یعنی سب کچھ ہمارے اندرونی احساسات ،کیفیات کے زیر اثر ،خیال کی قوت  سے بدلا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔جو موسم ہمارے اندر کا ہو وہی ہم کو باہر دکھتا ہے ،

خیال کا تانا بانا ہی انسان ہے ۔جب تک انسانی دماغ کو کائنات کے شعور سے خیالات موصول ہو رہے ،اور دماغ خود بھی نشر کر رہا ہے اپنے انفرادی شعوری خیالات ،،اس وقت تک زندہ شمار ہوگا انسان ،
جیسے ہی یہ خیالات نشر کرنا اور وصول کرنا بند ہوتا ہے دماغ کو مردہ قرار دے کر انسان کی باڈی ۔جسم ،کو بھی مردہ قرار دے دیا جاتا ہے ،
ایک نکتہ یہاں بہت غور طلب ہے ۔
جو ٹیلی پیتھی جیسے علم کی  اصل  اور نچوڑ سمجھ لیں اس علم کے حصول کا  ،،
نکتہ  ،،

بقول بابا تاج الدین ناگپوری رحمتہ اللہ علیہ ،

خلاصہ اس کا یہ بنتا ہے کہ،،
جو خیالات ہم کو موصول ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ ہم سے متعلق ہوں ۔یا ہمارے ہی ہوں ۔
بلکہ یہ خیالات دور و نزدیک کی افراد کے بھی  ہو سکتے ہیں دیگر ،مخلوق کے ہو سکتے ہیں ،، ہوتے ہیں ،،💫
،یعنی کہیں دور و نزدیک سے یہ خیال لہروں کی صورت میں موصول ہوتے ہیں ہمیں ،
ابھی ہم کسی ایک خیال کو وصول کرتے ہیں جو بیت اللہ شریف سے متعلق ہوتا ہے ۔
ٹھیک دو ایک سیکنڈ بعد ہم کسی دوسرے خیال کی لہر کو موصول کرتے ہیں جس کا تعلق امریکہ سے برطانیہ سے ہو سکتا ہے ۔
ابھی ہم کسی دوست کے متعلق سوچ رہے ہوتے ہیں جس سے متعلقہ لہر خوشی کو اپنے اندر بعینہ ویسے محسوس کرتے ہیں کسی کھٹی میٹھی یاد کی طرح ،جیسے دوست موجود ہو ہمارے پاس ،،تو تھوڑی دیر بعد کسی دشمن  کے خیال سے بغض ،نفرت ،اور غیض کی کیفیت دماغ میں چل پڑتی ہے ،

خیال کی ایک اور طاقتور خصوصیت بھی ہے ۔
کہ خیالات کی طاقتور لہریں پوری کائنات میں موجود ہوتی ہیں ایک ہی وقت میں ،
پلک جھپکنے سے پہلے ہمارا خیال امریکہ سے ہو کر برطانیہ سے ہوتا ہوا جرمنی پہنچ کر واپس ہمارے پاس بھی پہنچ چکا ہوتا ہے۔۔
ابھی ہم کسی دوست ۔۔عزیز ،کو یاد کر رہے ہیں ۔تو وہ ہمیں کال کر دیتا ہےیق خود پہنچ جاتا ہے ہمارے پاس  ہم خوشگواری حیرت سے اس عزیز کو کہتے ہیں بڑی لمبی عمر ہے آپ کی ابھی آپ کو ہی یاد کر رہا تھا ،،
یہ بھی خیال کی لہر کا دوسری لہر سے رابطہ ہے ۔

یعنی دوست کو آپ سے ملنے کا خیال آیا تو وہ آپ کی طرف چل پڑا ٹھیک اسی وقت اس کے دماغ نے اس اطلاع کو آپ کے دماغ کی فریکوئنسی پر ارسال  کیا جس کو آپ کے دماغ نے وصول کر لیا تبھی پھر وہ لہر ایک خیال تصور بن کر کسی یاد میں ڈھل گئی ،تھوڑی دیر  بعد وہ دوست  ظاہری وجود کے ساتھ آپ کے پاس پہنچ بھی گیا ،،

اسی کو خیال بینی یا ٹیلی پیتھی کی قوت کہا جاتا ہے ۔
جو مسلسل ذہنی ارتکاز اور مراقبہ یا ایک خیال میں کچھ دیر روز بیٹھے کی۔مشق سے حاصل ہو سکتی ہے بقدر استطاعت ہر انسان کو مگر کسی راہبر کی رہنمائی میں  توجہ اور شوق سے ،،

ہم سبھی نے اس کا مشاہدہ کیا ہوگا چاہے وہ دھندلا ہی ہو ۔کہ پر کیف لمحوں میں خیالات کا دھارا  صرف کیف اور سرور کی کیفیت میں بدل جاتا ہے ۔
نا چاہتے ہوئے بھی ہم اپنے ماحول کے زیر اثر کچھ نا کچھ لازم اس خیال کو کیفیت کو محسوس کرتے ہیں جو ہمارے آس پاس پھیلا ہو ۔چاہے وہ ہم سے جتنا بھی غیر متعلق ہو ۔
یعنی روڈ پر دوران سفر ہم کسی ایسی جگہ سے گزرتے ہیں جہاں ٹریفک حادثے کی صورت میں انتشار ،دکھ ،درد ،رنجیدگی چھا چکی ہے تو کچھ دیر کو ہی سہی ہم اس ماحول میں پھیلے دکھ درد کو ضرور محسوس کرتے ہیں ،جبکہ ہمارا اس سے نا کوئی تعلق ہوتا ہے نا ہی واسطہ ۔
صرف وہاں پر موجود دماغوں کے ٹرانسمیٹر مسلسل ،دکھ درد ،اور تکلیف کے خیالات کو نشر کر رہے ہوتے ہیں ۔اور ساتھ امداد کا پیغام نشر کرتے ہیں

 ،دکھ تکلیف میں موجود دماغ بہت شدت اور قوت سے ایمرجنسی الرٹ نشر کرتے ہیں خیال کی قوت سے کہ ہم سخت تکلیف میں ہیں ہماری امداد کی جائے ،،پاس سے گزرتے حساس دماغوں کے ٹرانسمیٹر آٹو سسٹم کے تحت خود بخود اس فریکوئنسی سے جڑ کر ان کی نشریات کو وصول کر کے ۔جواب میں کچھ دماغ خیالی صورت میں ،،دکھ افسوس ،کے پیغام نشر کرتے ہیں اس وقت جواب میں ،کچھ خیالات میں تسلی ہوتی ہے فقط ۔۔جو زیادہ حساس طبیعت کے انسان ہوں  وہ تکلیف میں موجود انسان کے دماغ سے نشر کئے گئے امداد کے  خیال ،،پیغام کو   پہلے ،فوراً کیچ کر کے امداد کو رک جاتے ہیں ،جائے حادثہ میں موجود  دماغوں میں ہر ایک کا جوابی پیغام بصورت خیال مختلف ہوتا ہے ۔۔

اب اسی کو دوسرے پیرائے میں دیکھتے ہیں ،
کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں پہنچ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم سکون اور اطمینان کی لہروں میں محفوظ ہو گئے ہیں ،

حفاظت ،سکون ،اطمینان ،یقین ،،ہم پر یوں چھا جاتا ہے جیسے کڑی دھوپ میں بادل سایہ کر لیتے ہیں ہم پر ،،
جبکہ سیم اسی طرح کی عمارت یا جگہ پر ہم کو سخت بے اطمینانی ،خوف ،اور عجیب طرح کی بے چینی محسوس ہونے لگتی ہے ،

یعنی بے جان چیزیں بظاہر بے جان ہی دکھتی ہیں ۔
مگر ان سے سکون یا انتشار کی لہریں منعکس ہوتی ہیں ،
آسان لفظوں  میں چیزیں ،،جگہیں بھی ۔ جانداروں کے  اچھے برے ،ہر طرح کے خیالات کو نا صرف محسوس کرتی ہیں بلکہ ان کو اپنے اندر محفوظ کر کے واپس نشر بھی کرتی ہیں ،

جس کو ہر جاندار محسوس کرتا ہے جس کا مشاہدہ ہر انسان کرتا ہے اپنی زندگی میں کئی بار ۔
اب چلتے ہیں اس قوت خیال سے فائدہ اٹھانے کی طرف ۔۔
جب معلوم ہو گیا کہ ہم صرف خیالات کا مجموعہ ہیں خیال کا تانہ بانہ ہی ہماری زندگی کا آغاز و اختتام ہے تو کیوں نا اس خیال کو  اس کی قوت کو قابو کیا جائے ۔۔کنٹرول کیا جائے ،

اس خیال کی قوت سے،، ہم بیماروں کی تکلیف دہ لہر کو موصول کریں تو  اپنی صحت مند قوت خیال کی لہر کو واپس نشر کریں تاکہ بیمار کو اس صحت مند لہر سے طاقت اور امید کی صورت میں  ،شفاء ۔ڈھارس ،اعتماد ،یقین کا  احساس پیدا ہو 

اسی طرح ہر مسئلہ کو دیکھیں ۔

کسی بھی جگہ سے آئی، ناامید ۔تکلیف زدہ ،مایوس،تشکیک زدہ ،متشدد دماغی بیمار ،خیال کی  لہر کو ۔وصول  کریں تو تو جواب میں
اپنی مثبت ۔پر امید ،،پر یقین ، پر امن خیال کی لہر کو نشر کریں تاکہ مایوسی کی جگہ یقین ۔امید ،خوشی  امن کی لہروں کا اضافی ہوجائے جس سے تھکے ماندہ دماغوں کو کچھ سکون ملے اطمینان ملے ،،حقیقی ،صوفیاء کرام  یہی کام کرتے ہیں ،یعنی اپنے دماغی خیالات  کو پاکیزہ کرتے ہیں دل کے ساتھ ۔ارتکاز توجہ ،ذکر اذکار ،مراقبہ ، اپنے مذہب کے طریقہ کار کے تحت  ،پھر ان ان پاکیزہ ،پر امن ،پر یقین ،خوشی سے لبریز خیالات کو مسلسل نشر کرتے ہیں تاکہ ۔پراگندگی خیالات کچھ نا کچھ کم ہوتی رہے ،شکںکی جگہ یقین اور تشدد کی جگہ امن پھیلے ۔۔۔

آئیے آج سے ادنیٰ سی کوشش ہم بھی کریں اپنے خیالات کو پاک کرنے کی اور پاک خیالات کو آگے نشر کرنے کی 

🌹فیاض حسین بخاری